Sunday, August 25, 2024

اور ہـــــــڈی ٹوٹ گـــــــــئی

 


افسانــــــــــــہ

سلسلــــــــــہ نمبــــــــر:1

           ۔۔۔۔۔۔۔۔اور ہـــــــڈی ٹوٹ گـــــــئی!!!

از قــــــلم: ظفر ہاشم مبارکپوری

طارق درسگاہ میں بیٹھا مطالعہ میں مستغرق اور علم کے سمندر میں غوطے لگا رہا تھا، استاد محترم مدرسہ نہیں آ سکے تھے وہ چھٹی پر تھے، آج موسم ابر آلود تھا، کالے گھنے بادل چھائے ہوئے تھے، تیز و تند ہوائیں سائیں سائیں چل رہی تھیں ـ 

شدید گرمی اور تپش سے لوگوں کا برا حال تھا، باران رحمت نہیں ہو رہی تھی، لوگوں نے مسجدوں میں اکٹھے ہو کر دعائیں بھی مانگی تھیں، لیکن بارش کی ایک بوند بھی نہیں پڑی تھی ـ

مگر اللہ کے فضل و کرم سے آج موسم بہت خوشگوار، انتہائی خوش نما اور پربہار تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ بس موسلادھار بارش ہونے ہی کو ہے، تبھی ایک بجلی کی طرح تیز و طرار آواز پردہ سماعت سے ٹکرائی، 

طارق۔۔طارق۔۔طارق۔۔ 

یہ دیکھو!!! 

بارش شروع ہوگئی ہے، اور اس نے رفتار بھی پکڑ لی ہے، جلدی آؤ، جلدی آؤ!!!

 یہ بھاری بھرکم آواز عزیز دوست "شعیب" کی تھی، جو درسگاہ کے باہر موسم سے لطف اٹھا رہا تھا اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں کھا رہا تھا، جو طارق کا چہیتا اور جگری دوست ہے، گاؤں میں ان دونوں کی دوستی کے بڑے چرچے ہیں، ان دونوں کا یارانہ اور دوستانہ گاؤں میں ایک مثال بن گیا ہے- 

*"دوست ہوں تو ایسے"ـ*

طارق چھٹپٹاتے ہوئے مارے خوشی کے درسگاہ سے باہر آیا، طارق کو بارش میں نہانے کا بیحد شوق ہے، وہ بارش کو دیکھتے ہی پاگل ہو جاتا ہے، اور بارش میں نہائے بغیر نہیں رہتا ـ

ادھر کئی درسی ساتھی اکٹھے بھی ہو چکے تھے، پھر سارے دوست *"شعیب، فہیم، فضل، طارق اور عارف"* یکے بعد دیگرے دم دباتے ہوئے مدرسے کے پچھلے باب سے باہر آئے، چونکہ بارش زوروں کی ہو رہی تھی، جمیع احباب کا یہی منصوبہ تھا کہ بارش میں بھیگیں گے، موج و مستی کریں گے اور لطف اندوز ہونگے!!!

گیٹ سے نکل کر سبھوں نے فوراً مدرسے کے قریب *"حَسِین"* نامی باغ کی راہ لی، *"حسین باغ"* کافی بڑا، انتہائی پر سکون اور خوبصورت ہے، سیر و سیاحت کا ایک پُرسکون مقام ہے، باغ میں مختلف قسم کے رنگ برنگ کے پھول لگے ہوئے تھے، سب بارش میں بھیگتے ہوئے پھولوں کی خوشبوؤں سے محظوظ ہونے لگے-

یہ عالیشان باغ اپنے اندر ایک طرف شاندار اور بہترین گراؤنڈ بھی سموئے ہوئے تھا- 

سبھی گراؤنڈ میں جمع ہوئے، بس کیا تھا، بارش کے پانی سے مزید لطف اندوزی شروع ہوگئی، موج و مستی میں ڈوب گئے، مارے خوشی کے ایک دوسرے کے اوپر پانی اور مٹی اچھالنے لگے-

آسمان سے گرتی ہوئی بارش کی بوندیں چمکتے ہوئے ستاروں کے مانند لگ رہی تھیں-

کچھ لوگ بارش میں دوڑ کی ریس لگانے لگے، تو کچھ لوگ الگ الگ کھیل کود میں مشغول ہوگئے، سبھی کے چہروں پر خوشی کے آثار نمایاں تھے، ایسا محسوس ہو رہا تھا کی زندگی کا بارش میں بھیگتے ہوئے یہ پہلا حسین و خوبصورت اور دلکش لمحہ ہے، اور یہ لمحے وہ کسی بھی قیمت پر کھونا نہیں چاہتے،

سب اپنے اپنے کھیل کود میں مصروف و مسرور تھے، فرحت و شاد مانی کے ترانے و نغمے گا رہے تھے-

اچانک ایک دھڑام سے گرنے کی آواز آتی ہے، چونکہ سب دوست اِدھر اُدھر تھے، کچھ دور تھے تو کچھ قریب، بارش کی وجہ سے جگہ جگہ پھسلن بھی تھی، لیکن بارش میں نہانے کا بھوت سوار اتنا شدید تھا کہ پھسلن بھی اس کے سامنے فیل!

فضل نے فہیم سے بآواز بلند پوچھا، ماجرا کیا ہے؟

ادھر شعیب بھی چلایا،،،، ہوا کیا؟

عارف ہانپتے کانپتے طارق کے پاس پہنچا،

طارق۔۔۔طارق۔۔۔۔طارق۔۔۔

کیا ہوا،،،،،،،اب طارق زمین پر ڈھیر تھا، پھسلن کی وجہ سے وہ زمین کے قدموں میں بوسہ لینے پہنچ گیا تھا، شاید چوٹ لگی ہو اور ایسا ہی ہوا، وہ درد سے کراہنے لگا، فہیم، فضل، شعیب بھی بھاگتے اور چھلانگ لگاتے ہوئے تیزی سے قریب آئے، حال پوچھا، شاید پیر میں موچ آگئی ہو، عارف جلدی سے پیر مَس کرنے لگا، یکایک درد سے کراہنے کی آواز آئی،،،

مت چھوؤ،،،

کیوں، کیا ہوا، طارق کے منہ سے بے ساختہ نکلا،،

*"اور ہڈی ٹوٹ گئی"ـ*

بس کیا تھا، مستی بد مستی میں بدل گئی- خوشی غمی میں چھا گئی، مزا سزا میں تبدیل ہو گیا، سرور چُور ہو گیا، ہنسی خوشی سب اسی وقت ختم ہو گئی ـ

فوراً سبھی دوست اس کو اٹھا کر ہسپتال لے گئے، علاج و معالجہ کے بعد اب طارق الحمد لله ٹھیک ہے---


*25/اگست 2024*

Tuesday, August 20, 2024

غاب البدرُ

 

غاب البدرُ

غاب    البدرُ      من      سمائناَ

فسكنَ      الهمُ      في      قلوبناَ

لما  سمعنا   الخبرَ    في     حَيِّناَ

أصبحَ   الفؤادُ   مهموماً    حزيناَ


فدعونا اللهَ     بالرحمةِ    لفقيدنا

و ليُلهِمُنا     الصبرَ     و   السلوانا

و يرزقُنا     تحمُلَ     فراقه    عنا

لقينا العلماءَ و المعلمينَ و الطلابَا

حزينةٌ     أرواحُهم     و    العيونا

مثقلةٌ   قلوبُهم  بألمِ   رحيلهِ  عنا


هو البدرُ   ذو  الأخلاق    الرفيعة

 طَلِقُ   الوجهِ   باسماً و   ضحوكاً

 كان أديباً   شاعراً   معلماً   عالِمُنا

لطيفاً محبوباً قريباً  من  تلاميذنا


 حافظاً   للقرآنِ     مؤمنا     وفياً

 زاهداً    في  نفسهِ    و     دنيانا

 متمكناً    متأنياً    في    تدريسنا

 حادَّ  المزاجِ   في    النقدِ  أحيانا


كان.  ذكيَ   العقلِ   قويَ   الحفظ 

ذا مكانةً   عند  طلابنا  و   علمائنا


 بالفرحِ      و     السرورِ     يلاقينا

و  يمدُ    يدَ     العونِ    دوماً    لنا

 الطعامَ  و   الشرابَ    يمدُهُ   لكلنا


بذل   جهوداً  لنيلَ   العلمِ   شيخُنا

ألفَّ "التصانيف  "و "بنت  القصار" 

و كتابَ  "الشباب  في  شيخوخنا"

نال و ساماً و جائزةً  من  حكومتنا 

لتطويره     العربيةَ    و    ترويجها


اللهم يا حنان يا منان يا واسع الغفران

اغفر له و ارحمه و اعف عنه و موتانا


(في ذكرى رحيل الدكتور "بدر الدين الحافظ القاسمي" نور الله مرقده)

بقلم : ظفر هاشم المباركفوري


تحريرًا في الساعة السابعة ليلاً من  يوم الأحد.

٢٥ جمادى الآخرة ١٤٤٥ هـ

 الموافق ٧ يناير ٢٠٢٤ م .

میں نے رام اللہ دیکھا



 میں نے رام اللہ دیکھا:

"فلسطینی جلاوطنی کی ایک حیرت انگیز و نایاب خود نوشت"

تبصرہ نگار: ظفر ہاشم مبارکپوری

*"میں نے رام اللہ دیکھا"* کتاب کا علم سب سے پہلے مجھے بذریعہ فیسبک ہوا، نایاب بھائی نے جیسے ہی فیسبک پر اپنی مذکورہ نئی کتاب کا فوٹو اپلوڈ کیا تھا، اسی وقت میں نے نایاب بھائی کو بذریعہ واٹساپ میسیج کیا، خیر خیریت پوچھنے کے بعد مذکورہ کتاب کے بارے میں جانکاری لی۔۔۔۔،

بہر کیف ایک دن نایاب حسن بھائی کے روم پر پہنچا وہاں، ان سے ملاقات ہوئی، کچھ دیر گفت و شنید کے بعد، الحمد للہ نایاب بھائی کے بدست مجھے یہ کتاب نصیب ہوئی_

یہ کتاب دراصل فلسطین کے ایک زبردست شاعر، ادیب، نثر نگار، ناول نگار *مرید البرغوثی* کی عربی کتاب *"رأيت رام الله"* کا اردو ترجمہ ہے_

اصل کتاب عربی زبان میں ہے، اس کتاب کے تراجم بہت ساری زبانوں میں شائع ہو کر مقبول ہو چکے ہیں_

مرید البرغوثی 8 جولائی 1944 کو فلسطین کے ایک گاؤں *"دیر غسانہ"* میں پیدا ہوئے، اور 14 فروری 2021 کو *عمان، اردن* میں وفات پائی،

مرید البرغوثی بے شمار کتابوں کے مصنف ہیں، انہیں اس کتاب کے لیے امریکن یونیورسٹی، قاہرہ کی طرف سے 1997 میں *نجیب محفوظ ایوارڈ برائے تخلیقی ادب* سے نوازا گیا_

اردو زبان میں ترجمہ *مولانا محمد نایاب حسن قاسمی* صاحب نے کیا ہے، انہوں نے کتاب کا نام *"میں نے رام اللہ دیکھا"* رکھا_

کتاب کا ٹائٹل اتنا جاذب نظر ہے کہ انسان صرف ٹائٹل کَوَر دیکھ کر ہی محسوس کرے گا کہ کتاب کتنی نایاب، نادر، شاندار، جاندار، پرکشش اور پر لطف ہوگی_

اللہ کے فضل و کرم سے، الحمدللہ میں نے اس کتاب کو اول تا آخر پڑھا، ہاں اس کو یکبارگی تو نہیں پڑھا، تھوڑا تھوڑا کرکے ہی مکمل کیا، زیادہ مشغولیات کی وجہ سے جلدی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکی، لیکن الحمد للہ آہستہ آہستہ مکمل ہوئی، 

میں نے اصل کتاب *"رأيت رام الله"* عربی زبان میں بھی پڑھا_

عربی کتاب کا میں نے پرنٹ نکلوا لیا تھا، کیونکہ پی ڈی ایف سے پڑھنا کافی دشوار کام ہوتا ہے، اور جو پڑھا جاتا ہے یاد نہیں رہتا بہت جلد بھول جاتا ہے_

مصنف نے اپنی کتاب میں نو ابواب قائم کیے ہیں اور کتاب کا آغاز ایک *"پل"* سے کرتے ہیں، اور اختتام نویں باب *"قیامت خیز شب و روز"* پر کرتے ہیں_

کیا زبردست کتاب ہے، الفاظ اور جملے نہایت ہی شاندار ہیں، تعبیرات بہت ہی عمدہ ہیں،

یہ ایک ایسی خود نوشت ہے جو ادبی مظہر سے جڑی ہوئی ہے اور اسے انسانی ادب کے طور پر حد بندی کی گئی ہے_

فلسطینی مہاجرین کے تجربات کو بیان کرنے والی ایک اہم کتاب ہے، مغربی کنارے سے مصنف کی جلاوطنی اور تیس سال بعد واپسی کا پس منظر بھی ذکر ہے_

یہ کتاب واقعی زبان کے لحاظ سے ایک ادبی اور فنکارانہ شاہکار ہے_

نایاب حسن صاحب نے ادب کا اچھا خاصا خیال رکھا ہے، جس طرح عربی کتاب ادب سے بھر پور ہے اسی طرح اردو ترجمہ میں بھی ادب کا خاص خیال رکھا گیا ہے، کتاب پڑھتے ہوئے یہ محسوس بالکل بھی نہیں ہوگا کہ ہم کسی کتاب کا ترجمہ پڑھ رہے ہیں، اول تا آخر آپ کو کہیں بھی کسی قسم کی بوریت محسوس نہیں ہوگی، کیا ہی زبردست اور شاندار اردو تعبیرات کا استعمال ہے، جملے اور تراکیب میں چاشنی ہے، آدمی بس پڑھتا ہی چلا جائے_

مترجم نے اردو داں عوام و خواص کے لیے سلیس اور شگفتہ اردو ترجمہ کرکے اردو زبان کے کتب خانے میں ایک نادر اور نایاب کتاب کا اضافہ کر دیا ہے،

کتاب معلومات سے پر ہے، اور مسئلہ فلسطین کے متعلق قاری کو حد درجہ واقفیت ہو سکتی ہے ،

زیر نظر کتاب سے چند اقتباسات لئے گئے ہیں امید ہے قارئین کو پسند آئیں گے:

*ایک قاتل ریشمی رومال سے بھی آپ کا گلا گھونٹ سکتا ہے اور کلہاڑی سے بھی آپ کا سر توڑ سکتا ہے، مگر دونوں صورتوں میں مرنا آپ ہی کو ہے_* (ص-62)

*اعتدال پسند بھی کسی نہ کسی وقت انتہا پسندوں کی زبان سیکھ لیتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر انتہا پسند بھی اعتدال پسندوں کے ریشمی لہجوں میں باتیں کرنے لگتے ہیں، اور ہم جو گھر کے مالک ہیں، ہر حال میں اور ہر طرح خساروں سے دو چار ہوتے ہیں_* (ص-63)

*صرف مسافر ہی غیر ملکی سرحدوں پر تکلیف نہیں اُٹھاتے، بسا اوقات ان حدود میں رہنے والے شہریوں پر بھی برا وقت آجاتا ہے، سوالات کی کوئی حد نہیں، وطن کی کوئی سرحد نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔* (ص-74)

*جہاں تک میری ماں کا تعلق ہے، تو ان کی امنگوں کی کوئی حد نہیں، جو کچھ وہ حاصل نہیں کر سکیں، چاہتی تھیں کہ ان کے بیٹے حاصل کریں اور جو کچھ ہم نہیں حاصل کر سکے، چاہتی ہیں کہ ان کے پوتے پوتیاں حاصل کریں_*(ص-150)

*ہم نے طویل عرصے بعد زندگی کا یہ سبق سیکھا کہ کنگھی کے دانت بھی حقیقت میں برابر نہیں ہوتے_* (ص-151)

اسی طرح عربی اور اردو دونوں کتابوں کا مطالعہ کرتے ہوئے کچھ عمدہ اور جدید تعبیرات و جملے بھی اکٹھا کی ہے، امید ہے عربی ادب کے دلدادہ طلباء کے لیے مفید اور کارگر ثابت ہو_

١- قطرة العرق تنحدر من جبيني إلى إطار نظارتي ثم تنحدر على العدسة 

میری پیشانی سے ٹپکنے والے پیسنے کے قطرے چشمے کے فریم اور پھر شیشے تک پہنچ رہے ہیں 

٢- غبشٌ شامل يغلل ما أراه

میری نگاہوں کے سامنے دھند سی چھاتی جا رہی ہے 

٣- أسمع طقطقة الخشب

میں لکڑی کی کھٹکھٹاہٹ سن رہا ہوں 

٤- مرت الامتحانات بدون مفاجآت 

امتحانات بحسن وخوبی گزر گئے 

٥- بعد ظهور النتيجة 

رزلٹ آنے کے بعد 

٦- شرع في طلاع البيت

مکان کی پینٹنگ کروانا 

٧- مناورات الجيش المصري

مصری فوج کے حملے

٨- سلّم ورقة الإجابة لمراقب القاعة

نگران امتحان کو پرچہ سونپنا 

٩- نظر إلى ممتعضا

خشمگیں نگاہوں سے دیکھنا 

١٠- اجتمع حولنا عدد من الطلبة

ہمارے آس پاس کئی طلبہ اکٹھا ہو گئے 

١١- المدينة سقطت

شہر زمیں دوز ہو چکا ہے

١٢- من تصادف وجودهم خارج الوطن

جو لوگ اپنے ملک سے باہر تھے 

١٣- غامر بالعودة تسللا

چھپ کر واپسی کا خطرہ مول لیا 

١٤- العنصر المندس

گھس پیٹھی

١٥- تنعطب العلاقة 

تعلق کمزور ہونا

١٦- ذاكرته تستعصي على التنسيق

اس کی یادیں پردہ ذہن پر باقی نہیں رہتیں 

١٧- هل كنت بالنضوج الكافي لإدراك أن

کیا میری عقل اتنی پختہ تھی کہ میں سمجھ سکوں کہ

١٨- يصاب المرء بالغربة كما يصاب بالربو

انسان کو جس طرح دمے کی بیماری ہوتی ہے ویسے ہی غریب الوطنی ہوتی ہے

١٩- اختفت كل جوانب القسوة في شخصيته 

ان کی شخصیت کی سختی کے تمام پہلو ندارد تھے،

یہ چند چیدہ تعبیرات و جملے ہیں ویسے پوری کتاب تعبیرات سے پر ہے اس مختصر سے مضمون میں سب کا احاطہ ممکن نہیں، آپ بھی اس کتاب کا مطالعہ کریں عربی اور اردو دونوں کتابوں کا مطالعہ کریں ان شاءاللہ فائدے سے خالی نہیں_

اس کتاب کی عام قیمت 400روپے جبکہ رعایتی قیمت 280 روپے ہے ، مرکزی پبلیکشنز، نئی دلی نے اِسے شائع کیا ہے۔ آن لائن منگوانے کے لیے ذیل کے نمبرات پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔

9560188574

اللہ تعالیٰ فلسطینی مسلمانوں کی مدد فرمائے، مترجم کی عمر دراز کرے اور مزید ترقیات سے نوازے، اور مؤلف کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین _

30 جولائی 2024 بروز منگل

Monday, August 19, 2024

The Essence of Life and Its Sorrows

 The Essence of Life and Its Sorrows

Qazi Athar Mubarakpuri RH

Translated by : Zafar Hashim Mubarakpuri


Human beings suffer from various kinds of illness in their lives. Generally, they get treatment easily because they know their disease. But some ailments are that even knowledgeable and understanding people don't know how to heal and get recovery.

They fall sick but they are unable to return to health after such kind of illness. 

There is no disease in the world that couldn't be healed, but Allah SWT has created remedy for every disease.

 (Narrated Abu Huraira Rz: The Prophet (Peace Be Upon Him) said, "There is no disease that Allah has created, except that He also has created its treatment.") 

However, we point out here the disease that could not be cured due to hiding and lack of knowledge. But if we come to know about it, we will get well soon with a minor treatment.

Today, we are going to tell you a story about a dangerous and deadly disease. You see how the illness is so dangerous, but how soon it would be cured with a minor treatment.

Allama Qazi Abu Ali Mohsin Bin Ali Bin Mohammad (384) Hijri wrote a book entitled "Nishwar al-Muhadrah wa-Akhbar al-Mudhakrah". This book is written in arabic language and got published in Egypt. 

The book reads that Abu Mohammad Jafar Bin Warqa Shaibani said in 349 Hijri that Ibn Jassas was my close friend. We both live together with love, peace and happiness. 

Once, Ibn Jassas' condition had deteriorated which caused him to be homebound. He spent a tough time under the pressure of the current government.

The time when he was recovered from the difficulties and troubles, at that moment I met him personally at his home.

The story is that I was sailing my boat in the river of Dajla. The weather was very hot, it was a scorching sun. The king's castles were built in the bank of river. I lifted my eyes to a window of a building and saw that Ibn Jassas was wandering to and fro in front of the window with turmoil and unrest.

I tried to stop my ship seeing him worried and anxious, and entered his castle without permission. As he saw me, he got shy at once, came to me hurriedly and sat. 

What is wrong with you? 

I asked him about his health, he couldn't give me any response but ordered to bring a jug of water to wash his hands and face. For a while, he fainted, then woke up and stayed calm, and said,

is it not good to lose my mind? while I lost many things. Why wouldn't I be in this situation remembering all those things that left and why wouldn't I lose my mind due to regretting that?

After listening to his talks, I said that there is no need to be worried about wealth, it may come abundantly and go exuberantly.

Kindly understand that there is no alternative of life, mind and body in this world. Once, these things end, everything ends. You may have wealth and property and you may also lose, but once your body, your mind and your life end, it would never return back.

Hence, whatever you possess right now, you should thank Allah Almighty and seize the opportunity.

The sorrow and difficulty that you face, should be faced by those who are frightened of beseeching, poverty and need, and who are afraid of their lifestyles that they couldn't live with a luxury life. There is no concern about these things. There is none equal to you in the wealth and prosperity in Baghdad after even ruining and devastating all the things. 

Ibn Jassas stated immediately by listening to his words. What do you say?

I said, please be all ears!!!!

Don't you feel that you and your family live with a luxury life after even destruction?

Is your house decoration and your furniture not the same as it was earlier?

"Is your land, its value reaches 50 thousand Dinar, not available in your Village?" I asked.

He replied, yes, of course I have.

Don't you possess a lot of properties in Bab-Al-taq?

Don't you own the properties of one lakh Dinar in Basra?

Likewise, I have counted Ibn Jassas' every single property and wealth, and he continued nodding his head yes. Until I emulated all the properties that come to Nine Lakh Dinar.

After all, I asked him Do you know someone these days who is richer than you and more powerful than you in Baghdad? 

You are more valuable, more generous and more respectful person among people.

People ponder that you have a lot of money and properties.

After hearing all those things, Ibn Jassas prostrated to Allah SWT straightaway, praised Him and spoke weeping:

By God, thinking and sorrow have overcome me, until I have forgotten everything. These things are nothing to me in return for lost wealth.

If you don't meet me at present, my sadness definitely ruins my mind, but Allah SWT saved me from this disaster and catastrophe because of you.

It's true that no one gave me a favour and sympathy like you. For the last three days, I have not eaten anything. 

I kindly request you please stay here so that we could take some food, have some coffee and exchange our views and conversations. (Nishwarul Muhazara)

This story has many results and lessons that we can learn from it a lot.

1- When any disaster occurs in our lives and the situations deteriorate, people fail to understand what to do and what not to do, while, in this situation, we should look for joy, delight and happiness for ourselves.

2- People evaluate their losses that happen due to their misconceptions and misapprehensions and spread it a lot, but they forget the mercy of Allah and His blessings.

They forget whatever foods and goods they have in their houses.

If any businessman loses some money in a year, they lose their temper and forget that they gained benefits of Lakhs in previous years.

3- Thought and sorrow annoy and upset mankind, even it causes them to appear radiculous and they begin to act in a stupid way. That's why, we should remember Allah SWT at a time of difficult situation and thank Him in every condition. Allah Almighty definitely makes a right way for us.

4- Occasionally, minor and light talks are also very precious and valuable. We don't get it even after spending a lot of money.

Whatever Abu Mohammad Jafar said to Ibn Jassas,

It was just a minor talk that Ibn Jassas himself already knew.

5- The way he met Ibn Jassas, the way he talked to him, the way he behaved him, that was important.

So,our ways and methods of talking, behaving and meeting should be good and well mannered. It leaves a great impression on the people's lives.


Monday - 19 August 2024

Sunday, August 18, 2024

مأذنة الضوء

 مأذنة الضوء

   وقت العمل في المكتب يبدأ من الساعة التاسعة صباحاً و ينتهي الساعة الخامسة مساءً، لكن "معين أحمد شمسي" لا يصل إلى البيت أبداً على الوقت المحدد بسبب الإنشغال الكثير.

و ما زال يعمل في هذا المكتب منذ عشرين سنة. و كان يبذل "شمسي" جهوداً كثيرة في عمله و يعمل كادحاً و لكن بعد ذلك أصبح كاتباً صغيراً.

و كانت زوجة "شمسي" كريمة الخلق و مؤدبة. و تدير المنزل بذكائها و تكاد تنفق لإدارة البيت ثلاثة آلاف روبية هندية. و لم يتمكن "شمسي" من الحصول على الدراسة العليا و لكنه كان حريصاً للغاية على أن يتعلم أبناؤه الدراسات العليا و لكن لم يتحقق حلمه و أمنيته بسبب أنه لم يُرزق الأولاد و صبر على ذلك إدراكاً منه رضاً للرب.


و كان "شمسي" عندما يتوجه إلى البيت كل يوم بعد أداء صلاة المغرب، يرى ولداً صغيراً أمام متجر "الشيخ تمبر مرشينت" على ممر المشاة و هو يصلح الأحذية (يعمل في مهنة تصليح و تلميع الأحذية). 

قبل أن يصل "شمسي" المكتب صباحاً كان الولد الصغير ينظف المكان الخاص على ممر المشاة و يخرج آلاته من الصندوق القديم و يضعها على الأرض و بدأ ينشغل في عمله.

و كان ينظر "شمسي" إلى هذا الولد الصغير إياباً و ذهاباً، فيقول الولد مبتسماً السلام عليكم يا سيدي.

و ذات مساء، عندما قد ذهب جميع الموظفين إلى منازلهم، و لم يبق هناك أي شخص في العمل، نادى "شمسي" يا بني تعال عندي فوق. و بعد برهة، أتى الولد منظفاً يديه بطرف قميصه و وقف جانباً مؤدباً.

حياك الله عزيزي و أهلاً و سهلاً بك.

و قال "شمسي" بإيماء للولد تفضل بالجلوس على الكرسي الذي كان أمامه.

فقال أيها الولد العزيز، مرةً قلتَ لي أنك قد درستَ إلى الصف السابع.

لماذا لم تدرس المزيد؟

هل تعلم أن العلم جوهرة الإنسان؟

يا سيدي حتى اليوم أنا حريص جداً للحصول على الدراسات العليا و لكن ماذا أفعل، يجب أن أعمل لأكسب المال لأُعيل أسرتي و لإطعام والديَّ العجوزين.

و أكيد أحتاج إلى النقود للحصول على التعليم، "قالها الولد بصوت خفي حزين و نكس رأسه".

و بعد قليل، بدأ شمسي يفكر، و قال : طيب لا بأس  تعال هنا للقائي بعد غدٍ بعد أداء صلاة الجمعة.

حضر "شمسي" بعد صلاة الجمعة فوجد الولدَ جالساً أمام طاولته و كان يلمع وجهه بنور الأمل. 

فقال "شمسي" للولد كان مطرقا رأسه على الطاولة، اسمع أيها الولد العزيز "لقد ألحقتُك بمدرسة"دوست ببلك" التي تقع خلف "بخارى فلور ملز" و دفعتُ أيضا جميعَ الرسوم لقبولك سنة كاملة، و أعطيتُ نقودا لمدير المدرسة السيد "شفيق أحمد" للكتب و القرطاسية و المعدات الدراسية الأخرى.

اذهب و التقِ بمدير المدرسة يوم الإثنين، و بعد انتهاء الدراسة يمكنك أن تصلح الأحذية.

حقا؟؟..

"كان الولد بمنتهى السرور و الفرح، يا سيدي الغالي لن أنسى إحسانك العظيم أبداً طوال حياتي".

أيها العزيز ما فعلتُ أي شيء لكن حاولت أن أحقق أمنياتي الكبيرة.

إن تفهم أني فعلتُ خيراً معك و لا بد أن تتبع ثلاث نصائح.


*الأولى:* يجب أن تبذل ما في وسعك من الجهود الجبارة تجاه التعليم و الدروس لكي تكسب الإحترام و التقدير في حياتك.


*والثانية:* كلما رزقك الله توفيقاً و مؤهلاً، لا بد لك أن تكفل طالباً واحداً على الأقل لتَلمَع أنوار العلم كما بدأتُ بإضاءة مصباح من مصابيح العلم.


*والثالثة و الأخيرة:* لا تقل لأحد عن أني قدمت المساعدة لك و قلتُ أيضاً لمدير المدرسة أن لا يفشي لأحد السر الذي بيني و بين الولد.


و تدور قصة "الإسكاف" من تلك الفترة إلى زمن الرئيس "خواجه شبينگ لائنز" منذ ثلاثين عاما تقريباً. و لم ينسى هذا الولد أبداً الإحسان العظيم من ذلك الرجل، فقد أوصله ذلك الإحسان إلى طريق النجاح.


و خلال فترة ثلاثين عاماً فقد تكفّل الولد دراسة العديد من التلاميذ و مد يد العون لهم. لكن هذا الولد لم يفِ وعده الأخير أن لا يفشي اسم المحسن. و ظن أنه لا ينبغي لمثل هذا الشخص أن يبقى مجهولاً و عليه أن يتذكر اسمه أبداً. 

و أضاف قائلا : " إن مآذن النور يجب تبقى مضاءة دائماً لأن مثل هؤلاء الأشخاص يبقوا مصباح الطريق للآخرين.


وذكر هذه القصة رئيس "خواجه شبينگ" السيد خواجه "آصف رحمان" قبل تناول العشاء في الفندق و قال لي يا سيدي "محسن" أنا دائما أذكر هذه القصة للجميع لأن النور الذي أضاءه "شمسي" يكون نوراً  مضاءً أبداً. و السبب الآخر الذي زيّنه "شمسي" للولد بالدراسة و التعليم، هذا الولد هو أنا.



*سلسلة من القصص القصيرة.*

القصة الأولى : مأذنة الضوء 

بقلم : وقار محسن

ترجمة : ظفر هاشم المباركفوري

تحريراً الأحد 11/أغسطس 2024

غزہ، تمہاری جد و جہد کے رہنما اصول!

  غزہ، تمہاری جد و جہد کے رہنما اصول!!! چار سو ستر دن سے زیادہ "غزہ" ہر اس شخص کے لیے "علم کا میدان اور آماجگاہ بنا ہوا تھا، ...