افسانــــــــــــہ
سلسلــــــــــہ نمبــــــــر:1
۔۔۔۔۔۔۔۔اور ہـــــــڈی ٹوٹ گـــــــئی!!!
از قــــــلم: ظفر ہاشم مبارکپوری
طارق درسگاہ میں بیٹھا مطالعہ میں مستغرق اور علم کے سمندر میں غوطے لگا رہا تھا، استاد محترم مدرسہ نہیں آ سکے تھے وہ چھٹی پر تھے، آج موسم ابر آلود تھا، کالے گھنے بادل چھائے ہوئے تھے، تیز و تند ہوائیں سائیں سائیں چل رہی تھیں ـ
شدید گرمی اور تپش سے لوگوں کا برا حال تھا، باران رحمت نہیں ہو رہی تھی، لوگوں نے مسجدوں میں اکٹھے ہو کر دعائیں بھی مانگی تھیں، لیکن بارش کی ایک بوند بھی نہیں پڑی تھی ـ
مگر اللہ کے فضل و کرم سے آج موسم بہت خوشگوار، انتہائی خوش نما اور پربہار تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ بس موسلادھار بارش ہونے ہی کو ہے، تبھی ایک بجلی کی طرح تیز و طرار آواز پردہ سماعت سے ٹکرائی،
طارق۔۔طارق۔۔طارق۔۔
یہ دیکھو!!!
بارش شروع ہوگئی ہے، اور اس نے رفتار بھی پکڑ لی ہے، جلدی آؤ، جلدی آؤ!!!
یہ بھاری بھرکم آواز عزیز دوست "شعیب" کی تھی، جو درسگاہ کے باہر موسم سے لطف اٹھا رہا تھا اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں کھا رہا تھا، جو طارق کا چہیتا اور جگری دوست ہے، گاؤں میں ان دونوں کی دوستی کے بڑے چرچے ہیں، ان دونوں کا یارانہ اور دوستانہ گاؤں میں ایک مثال بن گیا ہے-
*"دوست ہوں تو ایسے"ـ*
طارق چھٹپٹاتے ہوئے مارے خوشی کے درسگاہ سے باہر آیا، طارق کو بارش میں نہانے کا بیحد شوق ہے، وہ بارش کو دیکھتے ہی پاگل ہو جاتا ہے، اور بارش میں نہائے بغیر نہیں رہتا ـ
ادھر کئی درسی ساتھی اکٹھے بھی ہو چکے تھے، پھر سارے دوست *"شعیب، فہیم، فضل، طارق اور عارف"* یکے بعد دیگرے دم دباتے ہوئے مدرسے کے پچھلے باب سے باہر آئے، چونکہ بارش زوروں کی ہو رہی تھی، جمیع احباب کا یہی منصوبہ تھا کہ بارش میں بھیگیں گے، موج و مستی کریں گے اور لطف اندوز ہونگے!!!
گیٹ سے نکل کر سبھوں نے فوراً مدرسے کے قریب *"حَسِین"* نامی باغ کی راہ لی، *"حسین باغ"* کافی بڑا، انتہائی پر سکون اور خوبصورت ہے، سیر و سیاحت کا ایک پُرسکون مقام ہے، باغ میں مختلف قسم کے رنگ برنگ کے پھول لگے ہوئے تھے، سب بارش میں بھیگتے ہوئے پھولوں کی خوشبوؤں سے محظوظ ہونے لگے-
یہ عالیشان باغ اپنے اندر ایک طرف شاندار اور بہترین گراؤنڈ بھی سموئے ہوئے تھا-
سبھی گراؤنڈ میں جمع ہوئے، بس کیا تھا، بارش کے پانی سے مزید لطف اندوزی شروع ہوگئی، موج و مستی میں ڈوب گئے، مارے خوشی کے ایک دوسرے کے اوپر پانی اور مٹی اچھالنے لگے-
آسمان سے گرتی ہوئی بارش کی بوندیں چمکتے ہوئے ستاروں کے مانند لگ رہی تھیں-
کچھ لوگ بارش میں دوڑ کی ریس لگانے لگے، تو کچھ لوگ الگ الگ کھیل کود میں مشغول ہوگئے، سبھی کے چہروں پر خوشی کے آثار نمایاں تھے، ایسا محسوس ہو رہا تھا کی زندگی کا بارش میں بھیگتے ہوئے یہ پہلا حسین و خوبصورت اور دلکش لمحہ ہے، اور یہ لمحے وہ کسی بھی قیمت پر کھونا نہیں چاہتے،
سب اپنے اپنے کھیل کود میں مصروف و مسرور تھے، فرحت و شاد مانی کے ترانے و نغمے گا رہے تھے-
اچانک ایک دھڑام سے گرنے کی آواز آتی ہے، چونکہ سب دوست اِدھر اُدھر تھے، کچھ دور تھے تو کچھ قریب، بارش کی وجہ سے جگہ جگہ پھسلن بھی تھی، لیکن بارش میں نہانے کا بھوت سوار اتنا شدید تھا کہ پھسلن بھی اس کے سامنے فیل!
فضل نے فہیم سے بآواز بلند پوچھا، ماجرا کیا ہے؟
ادھر شعیب بھی چلایا،،،، ہوا کیا؟
عارف ہانپتے کانپتے طارق کے پاس پہنچا،
طارق۔۔۔طارق۔۔۔۔طارق۔۔۔
کیا ہوا،،،،،،،اب طارق زمین پر ڈھیر تھا، پھسلن کی وجہ سے وہ زمین کے قدموں میں بوسہ لینے پہنچ گیا تھا، شاید چوٹ لگی ہو اور ایسا ہی ہوا، وہ درد سے کراہنے لگا، فہیم، فضل، شعیب بھی بھاگتے اور چھلانگ لگاتے ہوئے تیزی سے قریب آئے، حال پوچھا، شاید پیر میں موچ آگئی ہو، عارف جلدی سے پیر مَس کرنے لگا، یکایک درد سے کراہنے کی آواز آئی،،،
مت چھوؤ،،،
کیوں، کیا ہوا، طارق کے منہ سے بے ساختہ نکلا،،
*"اور ہڈی ٹوٹ گئی"ـ*
بس کیا تھا، مستی بد مستی میں بدل گئی- خوشی غمی میں چھا گئی، مزا سزا میں تبدیل ہو گیا، سرور چُور ہو گیا، ہنسی خوشی سب اسی وقت ختم ہو گئی ـ
فوراً سبھی دوست اس کو اٹھا کر ہسپتال لے گئے، علاج و معالجہ کے بعد اب طارق الحمد لله ٹھیک ہے---
*25/اگست 2024*
No comments:
Post a Comment