افسانــــــــــــہ
سلسلــــــــــہ نمبــــــــر : 2
جان بچی لاکھوں پائے !!!
ظفر ہاشم مبارکپوری
دو پہر کا وقت تھا، چلچلاتی دھوپ تھی، گرمی اتنی شدید تھی کہ باہر کھڑے رہنا ایک سیکنڈ کے لیے بھی محال تھا، آج کل کے بچوں کو اسمارٹ واچ پہننے کا بیحد شوق ہے، زید بھی ان ہی میں سے ایک تھا وہ بہت ہی چالاک اور ذہین و فطین لڑکا تھا، اپنی کلائی میں پہنی ہوئی الٹرا واچ میں بار بار ٹائم دیکھ رہا تھا، ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی چیز کا بے صبری سے انتظار کر رہا ہو،
بعد ازاں جلدی جلدی ضروری سامان اور زاد راہ وغیرہ لگیج بیگ میں پیک کرنے کے بعد اہل خانہ سے بخوشی ملا اور الوداعی کلمات کہتے ہوئے گھر سے روانہ ہو گیاـ
پوں، پوں، پوں، پوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بس کے ہارن کی آواز بہت تیزی سے آ رہی تھی، بس قریب آکر رکی، زید بھی بس میں سوار ہو گیا، شاید یہ بس زید کے گاؤں سے دلی جا رہی تھی_
زید کا یہ سفر کافی لمبا سفر تھا، یہ ایک پرائیوٹ اے سی بس تھی، بس دیکھنے میں جدید بالکل بھی نہیں لگ رہی تھی، ایسا لگ رہا تھا جیسے سروسنگ ہوئے کافی عرصہ ہو گیا ہو اسی پر بس کو دُھونا اور چلایا جا رہا ہے_
ایک وہ زمانہ تھا جب اے سی بس کا نام ونشان بھی نہیں تھا، لوگ بیل گاڑی، گھوڑا گاڑی وغیرہ سے سفر کیا کرتے تھے، لمبے لمبے سفر کرنے کے لیے کافی تھکان ہو جاتی، پریشانی اور مشقت بھی اٹھانی پڑتی تھی_
خیر مسافروں کی ایک بڑی تعداد جوق در جوق سوار ہوتی رہی، آخر کار کچھ ہی لمحوں میں بس پُر ہو گئی، ہر ایک مسافر اپنی اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے، بس میں بچے، بوڑھے، نوجوان ہر عمر کے لوگ نظر آ رہے تھے_
اس بس میں نہ جانے کتنے لوگوں کے کیسے کیسے خواب ہوں گے جو اسے شرمندہ تعبیر کرنا چاہتے ہوں،
ہر ایک کا سفر کرنے کا اپنا کوئی نہ کوئی مقصد ہوگا،
کوئی دلی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مقصد سے سوار ہوا ہوگا، تو کوئی رزق حلال کے لیے اپنے بال بچوں کی خاطر سفر کر رہا ہوگا_
کوئی کمپنیوں میں بہترین ملازمت کے لئے پابہ رکاب ہوا ہوگا، تو کوئی دلی کے معروف و مشہور اسکولس، کالجز اور یونیورسٹیوں، جیسے جامعہ ملیہ اسلامیہ، جواہر لال نہرو، دلی یونیورسٹی، جامعہ ہمدرد، نیتا جی سبھاش یونیورسٹی، اندرا گاندھی نیشنل اوپن، ایس ٹی اسٹیفن کالج وغیرہ میں داخلہ کے لیے روانہ ہوا ہو_
ہر فرد کے اپنے ایک خواب ہوں گے، جو وہ اسے پورا کرنے کی غرض سے مسافر بنے ہوئے ہوں_
ممکن ہے بس میں ایسے لوگ بھی ہوں جو دلی کی سیر و تفریح کرنا چاہتے ہوں، وہاں کے مناظر سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہوں،
دلی کی "جامع مسجد" دیکھنا چاہتے ہوں یا "قطب مینار" کی سیر کرنا چاہتے ہوں،
"ہمایوں کا مقبرہ" کا دیدار مقصد ہو، یا پھر "لال قلعہ" کی چہار دیواریوں میں مستیاں اور اس کے حسین و جمیل مناظر سے لطف اندوزی ہو،
ہندوستان کی ایک اہم اور بڑی یادگار "انڈیا گیٹ" کی تفریح کا ارادہ ہو یا پھر مغل گارڈن کی سیر و تفریح،
بہائی عبادت خانہ "لوٹس ٹیمپل" دیکھنے کی خواہش ہو یا پھر مہاتما گاندھی کی آرام گاہ "راج گھاٹ" دیکھنے کا شوق_
مسافرین میں چند ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو بیچارے اپنی بیماریوں سے جھونجھ رہے ہوں گے اور مجبورا انہیں سفر کرنا پڑ رہا ہے تاکہ دلی کے بہترین ہسپتال جیسے ایمس (AIIMS)، اپولو (Apollo)، ہولی فیملی (Holy Family)، میکس ہاسپٹل (Max Hospital) وغیرہ ہسپتالوں میں علاج کرا سکیں_
ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو اپنے خاندان کے کسی فرد کو خارجی ممالک کے سفر کے لیے دلی ایئرپورٹ چھوڑنے جا رہے ہوں_
بس میں سوار مسافروں میں ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو بغرض تجارت دلی کی مشہور مارکیٹوں سے جیسے "گاندھی نگر، چاندنی چوک، خان مارکیٹ، کنات پلیس، کرول باغ، سروجنی نگر" وغیرہ سے مال و دیگر ساز و سامان خریدنے جاریے ہوں_
مختصراً یہ کہ ہر قسم اور ہر طرح کے لوگ ہونگے، ہر ایک اپنے میں مگن تھا،کسی کے چہرے پر خوشی تھی تو کسی کے چہرے پر اداسی،
کوئی اپنے کان میں مہنگے اور قیمتی ایئر پوڈ اور ایئر بَڈ لگائے ہوئے ہے تو کوئی رخیص اور سستہ وائرڈ ایئر فون اور ہیڈ فون،
کوئی موبائل سے کسی باتیں کر رہا تھا تو کوئی برابر والی سیٹ سے ہم کلام،
الغرض ہر ایک اپنے میں محو تھا،
ادھر بس نے بھی اچھی خاصی رفتار پکڑ لی تھی، ڈرائیور مست ہو کر بس چلائے جا رہا تھا، بس ابھی گاؤں سے کچھ ہی دور کے فاصلے پر پہنچی تھی، تقریباً تیس پینتیس کلومیٹر کا سفر طے کر چکی تھی،
زید کے گاؤں سے دلی کی مسافت تقریباً 900 کلومیٹر ہے،
اچانک ڈرائیور کیا دیکھتا ہے کہ بس کے آگے سے دھواں اٹھنا شروع ہوا اور آہستہ آہستہ دھواں تیز ہونے لگا، ڈرائیور کو احساس ہوا کہ کچھ تو گڑبڑ ہے موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے فوراً اس نے بس سڑک کے کنارے پارک کی، اور مسافرین سے گویا ہوا کہ آپ لوگ آرام سے ایک ایک کرکے بس سے نیچے اتر جائیں، بس میں کچھ خرابی آ گئی ہے اور افراتفری بلکل بھی نہ کریں آرام سے اتریے، ابھی یہ دھواں آگ نہیں بنا تھا، تب تک جمیع مسافرین ایک ایک کرکے بس سے نیچے اتر گئے تھے_
جیسے ہی سب لوگ اتر چکے، دھواں آگ میں تبدیل ہو گیا تھا، پھر آگ بڑھتی گئی، بس میں آگ بجھانے کے آلات بھی موجود نہیں تھے، آگ اتنی زبردست ہو گئی کہ اب آگ بجھانا بھی نا ممکن تھا، وقت پر فائر بریگیڈ والے بھی نہیں آسکے، ادھر آگ بجھانے کا کوئی ساز و سامان نہیں، آگ کی تپش کئی میٹر تک محسوس کی جا رہی تھی،
بالآخر، بس جل کر خاک ہوگئی، ریزہ ریزہ ہوگئی، بس کے اندر کچھ بھی نہیں بچا تھا، صرف ملبہ باقی تھا،
بیچارے مسافرین دور کھڑے ہو کر سارے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور کر بھی کیا سکتے تھے،
زید بھی ایک طرف کھڑا ہوکر اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا اور اس کی زبان سے یہ کلمات نکلے"جان بچی لاکھوں پائے"-
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آج اللہ نے ہم سب کو ایک بہت ہی بڑے اور خطرناک حادثے سے بچا لیا_
ہماری اماں جان کہا کرتی ہیں کہ بیٹا جب بھی گھر سے نکلا کرو یا کہیں سفر پر جایا کرو تو سفرِ دعا ضرور پڑھ کر نکلا کرو_
الحمد لله، میں نے گھر سے نکلتے ہوئے دعا پڑھی تھی اور میں دعا کا اہتمام بھی کرتا ہوں_
اللہ کا عظیم احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس ناگہانی سے محفوظ رکھا_
خیر بس جل کر بالکل بھسم ہوگئی تھی، اس کے بعد دھیرے دھیرے سب اپنے اپنے گھروں کو واپس جانے لگے کیونکہ اب دلی جانا ممکن نہیں تھا اور نہ ہی دوسری بس کا انتظام تھا، اور بس گاؤں سے بہت دور بھی نہیں نکلی تھی تو موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے لوگوں نے واپس اہل خانہ جانے میں ہی بھلائی سمجھی_
جان بچی لاکھوں پائے ۔۔۔۔۔
جان ہے تو جہان ہے
زندگی ہے تو خواب ہے
سنیچر - 14 ستمبر 2024ء -- 10 ربیع الاول 1446ھ
No comments:
Post a Comment