میں نے رام اللہ دیکھا:
"فلسطینی جلاوطنی کی ایک حیرت انگیز و نایاب خود نوشت"
تبصرہ نگار: ظفر ہاشم مبارکپوری
*"میں نے رام اللہ دیکھا"* کتاب کا علم سب سے پہلے مجھے بذریعہ فیسبک ہوا، نایاب بھائی نے جیسے ہی فیسبک پر اپنی مذکورہ نئی کتاب کا فوٹو اپلوڈ کیا تھا، اسی وقت میں نے نایاب بھائی کو بذریعہ واٹساپ میسیج کیا، خیر خیریت پوچھنے کے بعد مذکورہ کتاب کے بارے میں جانکاری لی۔۔۔۔،
بہر کیف ایک دن نایاب حسن بھائی کے روم پر پہنچا وہاں، ان سے ملاقات ہوئی، کچھ دیر گفت و شنید کے بعد، الحمد للہ نایاب بھائی کے بدست مجھے یہ کتاب نصیب ہوئی_
یہ کتاب دراصل فلسطین کے ایک زبردست شاعر، ادیب، نثر نگار، ناول نگار *مرید البرغوثی* کی عربی کتاب *"رأيت رام الله"* کا اردو ترجمہ ہے_
اصل کتاب عربی زبان میں ہے، اس کتاب کے تراجم بہت ساری زبانوں میں شائع ہو کر مقبول ہو چکے ہیں_
مرید البرغوثی 8 جولائی 1944 کو فلسطین کے ایک گاؤں *"دیر غسانہ"* میں پیدا ہوئے، اور 14 فروری 2021 کو *عمان، اردن* میں وفات پائی،
مرید البرغوثی بے شمار کتابوں کے مصنف ہیں، انہیں اس کتاب کے لیے امریکن یونیورسٹی، قاہرہ کی طرف سے 1997 میں *نجیب محفوظ ایوارڈ برائے تخلیقی ادب* سے نوازا گیا_
اردو زبان میں ترجمہ *مولانا محمد نایاب حسن قاسمی* صاحب نے کیا ہے، انہوں نے کتاب کا نام *"میں نے رام اللہ دیکھا"* رکھا_
کتاب کا ٹائٹل اتنا جاذب نظر ہے کہ انسان صرف ٹائٹل کَوَر دیکھ کر ہی محسوس کرے گا کہ کتاب کتنی نایاب، نادر، شاندار، جاندار، پرکشش اور پر لطف ہوگی_
اللہ کے فضل و کرم سے، الحمدللہ میں نے اس کتاب کو اول تا آخر پڑھا، ہاں اس کو یکبارگی تو نہیں پڑھا، تھوڑا تھوڑا کرکے ہی مکمل کیا، زیادہ مشغولیات کی وجہ سے جلدی پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکی، لیکن الحمد للہ آہستہ آہستہ مکمل ہوئی،
میں نے اصل کتاب *"رأيت رام الله"* عربی زبان میں بھی پڑھا_
عربی کتاب کا میں نے پرنٹ نکلوا لیا تھا، کیونکہ پی ڈی ایف سے پڑھنا کافی دشوار کام ہوتا ہے، اور جو پڑھا جاتا ہے یاد نہیں رہتا بہت جلد بھول جاتا ہے_
مصنف نے اپنی کتاب میں نو ابواب قائم کیے ہیں اور کتاب کا آغاز ایک *"پل"* سے کرتے ہیں، اور اختتام نویں باب *"قیامت خیز شب و روز"* پر کرتے ہیں_
کیا زبردست کتاب ہے، الفاظ اور جملے نہایت ہی شاندار ہیں، تعبیرات بہت ہی عمدہ ہیں،
یہ ایک ایسی خود نوشت ہے جو ادبی مظہر سے جڑی ہوئی ہے اور اسے انسانی ادب کے طور پر حد بندی کی گئی ہے_
فلسطینی مہاجرین کے تجربات کو بیان کرنے والی ایک اہم کتاب ہے، مغربی کنارے سے مصنف کی جلاوطنی اور تیس سال بعد واپسی کا پس منظر بھی ذکر ہے_
یہ کتاب واقعی زبان کے لحاظ سے ایک ادبی اور فنکارانہ شاہکار ہے_
نایاب حسن صاحب نے ادب کا اچھا خاصا خیال رکھا ہے، جس طرح عربی کتاب ادب سے بھر پور ہے اسی طرح اردو ترجمہ میں بھی ادب کا خاص خیال رکھا گیا ہے، کتاب پڑھتے ہوئے یہ محسوس بالکل بھی نہیں ہوگا کہ ہم کسی کتاب کا ترجمہ پڑھ رہے ہیں، اول تا آخر آپ کو کہیں بھی کسی قسم کی بوریت محسوس نہیں ہوگی، کیا ہی زبردست اور شاندار اردو تعبیرات کا استعمال ہے، جملے اور تراکیب میں چاشنی ہے، آدمی بس پڑھتا ہی چلا جائے_
مترجم نے اردو داں عوام و خواص کے لیے سلیس اور شگفتہ اردو ترجمہ کرکے اردو زبان کے کتب خانے میں ایک نادر اور نایاب کتاب کا اضافہ کر دیا ہے،
کتاب معلومات سے پر ہے، اور مسئلہ فلسطین کے متعلق قاری کو حد درجہ واقفیت ہو سکتی ہے ،
زیر نظر کتاب سے چند اقتباسات لئے گئے ہیں امید ہے قارئین کو پسند آئیں گے:
*ایک قاتل ریشمی رومال سے بھی آپ کا گلا گھونٹ سکتا ہے اور کلہاڑی سے بھی آپ کا سر توڑ سکتا ہے، مگر دونوں صورتوں میں مرنا آپ ہی کو ہے_* (ص-62)
*اعتدال پسند بھی کسی نہ کسی وقت انتہا پسندوں کی زبان سیکھ لیتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر انتہا پسند بھی اعتدال پسندوں کے ریشمی لہجوں میں باتیں کرنے لگتے ہیں، اور ہم جو گھر کے مالک ہیں، ہر حال میں اور ہر طرح خساروں سے دو چار ہوتے ہیں_* (ص-63)
*صرف مسافر ہی غیر ملکی سرحدوں پر تکلیف نہیں اُٹھاتے، بسا اوقات ان حدود میں رہنے والے شہریوں پر بھی برا وقت آجاتا ہے، سوالات کی کوئی حد نہیں، وطن کی کوئی سرحد نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔* (ص-74)
*جہاں تک میری ماں کا تعلق ہے، تو ان کی امنگوں کی کوئی حد نہیں، جو کچھ وہ حاصل نہیں کر سکیں، چاہتی تھیں کہ ان کے بیٹے حاصل کریں اور جو کچھ ہم نہیں حاصل کر سکے، چاہتی ہیں کہ ان کے پوتے پوتیاں حاصل کریں_*(ص-150)
*ہم نے طویل عرصے بعد زندگی کا یہ سبق سیکھا کہ کنگھی کے دانت بھی حقیقت میں برابر نہیں ہوتے_* (ص-151)
اسی طرح عربی اور اردو دونوں کتابوں کا مطالعہ کرتے ہوئے کچھ عمدہ اور جدید تعبیرات و جملے بھی اکٹھا کی ہے، امید ہے عربی ادب کے دلدادہ طلباء کے لیے مفید اور کارگر ثابت ہو_
١- قطرة العرق تنحدر من جبيني إلى إطار نظارتي ثم تنحدر على العدسة
میری پیشانی سے ٹپکنے والے پیسنے کے قطرے چشمے کے فریم اور پھر شیشے تک پہنچ رہے ہیں
٢- غبشٌ شامل يغلل ما أراه
میری نگاہوں کے سامنے دھند سی چھاتی جا رہی ہے
٣- أسمع طقطقة الخشب
میں لکڑی کی کھٹکھٹاہٹ سن رہا ہوں
٤- مرت الامتحانات بدون مفاجآت
امتحانات بحسن وخوبی گزر گئے
٥- بعد ظهور النتيجة
رزلٹ آنے کے بعد
٦- شرع في طلاع البيت
مکان کی پینٹنگ کروانا
٧- مناورات الجيش المصري
مصری فوج کے حملے
٨- سلّم ورقة الإجابة لمراقب القاعة
نگران امتحان کو پرچہ سونپنا
٩- نظر إلى ممتعضا
خشمگیں نگاہوں سے دیکھنا
١٠- اجتمع حولنا عدد من الطلبة
ہمارے آس پاس کئی طلبہ اکٹھا ہو گئے
١١- المدينة سقطت
شہر زمیں دوز ہو چکا ہے
١٢- من تصادف وجودهم خارج الوطن
جو لوگ اپنے ملک سے باہر تھے
١٣- غامر بالعودة تسللا
چھپ کر واپسی کا خطرہ مول لیا
١٤- العنصر المندس
گھس پیٹھی
١٥- تنعطب العلاقة
تعلق کمزور ہونا
١٦- ذاكرته تستعصي على التنسيق
اس کی یادیں پردہ ذہن پر باقی نہیں رہتیں
١٧- هل كنت بالنضوج الكافي لإدراك أن
کیا میری عقل اتنی پختہ تھی کہ میں سمجھ سکوں کہ
١٨- يصاب المرء بالغربة كما يصاب بالربو
انسان کو جس طرح دمے کی بیماری ہوتی ہے ویسے ہی غریب الوطنی ہوتی ہے
١٩- اختفت كل جوانب القسوة في شخصيته
ان کی شخصیت کی سختی کے تمام پہلو ندارد تھے،
یہ چند چیدہ تعبیرات و جملے ہیں ویسے پوری کتاب تعبیرات سے پر ہے اس مختصر سے مضمون میں سب کا احاطہ ممکن نہیں، آپ بھی اس کتاب کا مطالعہ کریں عربی اور اردو دونوں کتابوں کا مطالعہ کریں ان شاءاللہ فائدے سے خالی نہیں_
اس کتاب کی عام قیمت 400روپے جبکہ رعایتی قیمت 280 روپے ہے ، مرکزی پبلیکشنز، نئی دلی نے اِسے شائع کیا ہے۔ آن لائن منگوانے کے لیے ذیل کے نمبرات پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔
9560188574
اللہ تعالیٰ فلسطینی مسلمانوں کی مدد فرمائے، مترجم کی عمر دراز کرے اور مزید ترقیات سے نوازے، اور مؤلف کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین _
30 جولائی 2024 بروز منگل
No comments:
Post a Comment