Wednesday, February 5, 2025

غزہ، تمہاری جد و جہد کے رہنما اصول!

 

غزہ، تمہاری جد و جہد کے رہنما اصول!!!

چار سو ستر دن سے زیادہ "غزہ" ہر اس شخص کے لیے "علم کا میدان اور آماجگاہ بنا ہوا تھا، جو کچھ حاصل کرنے کا طلبگار اور خواہاں تھا_

غزہ نے ہمیں بے شمار اسباق سکھائے، لا محدود درس دیے_

غزہ نے ہمیں سب سے پہلے یہ سبق سکھایا کہ ہر گزرتے ہوئے دن کے آخری لائن پر ایک لکیر کھینچ دیں، یعنی حالات چاہے جیسے بھی ہوں، انہیں ماضی کے بوجھ تلے دبنے نہیں دینا چاہیے، بلکہ ہر دن کو نئی امید اور عزم کے ساتھ گزارنا چاہیے_

غزہ نے ہمیں استقامت کا حقیقی مفہوم سمجھایا اور دکھایا کہ مشکلات کا مقابلہ کیسے کیا جاتا ہے_ غزہ کی جدوجہد نے ہمیں انسانیت کی اصل حقیقت کا شعور دیا_

غزہ نے ہمیں قتل و غارتگری اور نسل کشی کا مقابلہ کرنے کے لیے قربانی پیش کرنے اور بازنطینی لڑائی کو روکنے کا فن سکھایا_

روز اول سے آخری روز تک، غزہ نے پوری جان لگا کر، پوری محنت و مشقت کے ساتھ، ہمیں اپنا درس دیا، باقی رہنے والی محبت کا فن سکھایا، جینے کا سلیقہ سکھایا، دن رات تمام تر سرگوشیوں اور وسوسوں کے باوجود کہ کوئی بھی چیز بقا کی مستحق نہیں، کچھ بھی زندہ رہنے کے قابل نہیں، اور یہ کہ بقا کا مطلب زندگی سے خوف کرنا ہے_

غزہ نے ہمیں اصطلاحات کو دوبارہ تخلیق کرنا سکھایا، صمود اور ثابت قدمی کے معنیٰ سکھائے، یہی نہیں بلکہ حقیقت میں اسے عملی طور پر اپنانا سکھایا، اس نے اس لفظ کے معنی کو نعروں سے دور کیا، اور اسے تقریروں اور بے کار ضرورتوں میں استعمال ہونے سے علیحدہ رکھا، تاکہ ان لوگوں کے لیے بڑی امیدیں بن کر سامنے آئیں جو موت، نقل مکانی، بھوک، قہر اور ظلم کی آگ میں جھلس رہے ہیں_

غزہ نے ہمیں سکھایا کہ سونے سے قبل اور اسکے بعد، ہر حالت میں اللہ کی تعریف اور اس کی بڑائی بیان کریں اور ہر مصیبت اور تکلیف میں اللہ تعالیٰ شکر ادا کریں، اور موت پر بھی اللہ کی تعریف اور شکر ادا کریں، اور خون سے لت پت ہر اس حصے پر بھی اللہ کی کبریائی بیان کریں اور شکر بجا لائیں، غزہ نے ہمیں سکھایا کہ ہم خواب ضرور دیکھیں، اور خواب کی اصلیت اور مقصدیت کو سمجھیں، غزہ نے ہمیں سکھایا کہ آزمائشیں بہترین نتائج فراہم کر سکتی ہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے ہمیشہ بہتر چیزوں کا ہی انتخاب کرتا ہے_

غزہ نے ہمیں دکھایا کہ مشکلات کے باوجود انسان میں قوتِ ارادی کا کتنا بڑا اثر ہوتا ہے، غزہ نے ہمیں یہ سبق دیا کہ زندگی کی اصل قیمت مشکلات میں چھپی ہوتی ہے،

غزہ کے حالات نے ہمیں یہ سکھایا کہ صرف عزم و ہمت سے ہی منزل تک پہنچا جا سکتا ہے_

غزہ نے ہمیں عمیق تجربات کا مفہوم سکھایا جو ہمارے جسموں پر اپنے اثرات و نشانات چھوڑ جاتے ہیں، غزہ نے ہمیں امید کا خواب دیکھنا اور اندھیروں کو جھیلنا سکھایا، دکھ درد کو سہنا سکھایا، تھوڑی سی امید کے لئے بھی مُسکرانا سکھایا، غزہ نے ہمیں چھوٹی چھوٹی چیزوں کے ذریعہ بھی معجزاتی تخلیق کرکے مسکرانا اور خوش ہونا سکھایا، اب چاہے یہ خوشی وقتی ہو عارضی ہو فانی ہو یا معمولی ہو، یہاں تک کہ بے وقعت ہو_

غزہ نے دنیا کو دکھایا کہ یکجہتی اور ہم آہنگی کیسے کی جاتی ہے، اس نے ارادہ، ہمت، بہادری، عزم و حوصلہ سکھایا، غزہ نے دنیا کو اصل کہانی کی حقیقت سے آگاہ کیا، اس نے اخلاقیات، اقدار اور بلند اصولوں کی تعلیم دی، اس نے بتایا کہ قوانین کا درجہ اور مقام، عدل و انصاف اور تبدیلی پیدا کرنے میں ہے نا کہ بس انہیں یوں ہی چھوڑ دینے اور محض تحریری طور پر محفوظ کرنے میں ہے_

غزہ نے اپنی چھوٹی سی سرزمین اور وسیع و عریض آرزوؤں کے ذریعے سکھایا کہ ناکامی اور شکست ہمارے لئے قابل قبول نہیں، اور جو کچھ ہم توقع کرتے ہیں اسی کے مطابق ہماری امیدیں اور آرزوئیں بنتی ہیں، 

غزہ کی جدوجہد نے ہمیں دکھایا کہ جرات اور عزم کی طاقت سے دنیا کو بدلنا ممکن ہے_

غزہ نے ہمیں یہ سکھایا کہ آزادی کا خواب ہمیشہ زندہ رہتا ہے، چاہے حالات جیسے بھی ہوں، عزت نفس اور آزادی کی جنگ ہمیشہ جیتی جاتی ہے_

اے غزہ، ہمیں تیرے اسباق اور تجربات کی مزید ضرورت ہے، اے غزہ، اپنے اصولی منہج کے مطابق وہ باتیں کہو جو کہنی چاہئیں، اے غزہ، تمہارے پاس ابھی بھی بہت کچھ ہے۔۔۔

اے غزہ، تو ہمیشہ شاد رہے آباد رہے،

تیری زمیں ہمیشہ سرفراز رہے،

تو ہمت و قوت کا سر چشمہ رہے،

تو عزم و حوصلے کی امید رہے،

تیری خاموش آوازیں دلوں کی گونجے بنے،

تیرا چراغ روشنی کے سفر کی داستان بنے،

تیرا عزم ظلم کے خلاف اٹھنے کا حوصلے بنے،

تیرا درد ہمارے دلوں کی دھڑکن بنے، 

تیری پکار آزادی کی جنگ بنے،

تیری تقدیر ایک نئی صبح کا آغاز بنے_


Wednesday, November 6, 2024

ایک خیمہ کے اندر اپنے نقّاش خانہ میں نسل کشی اور ثقل سماعت سے مقابلہ کرتے ہوئے بلال ابو النحل

 


ایک خیمہ کے اندر اپنے نقّاش خانہ میں نسل کشی اور ثقل سماعت سے مقابلہ کرتے ہوئے بلال ابو النحل


غزہ کی پٹی میں واقع "دیر البلح" نامی شہر میں "السلام" روڈ کے کنارے ایک خیمہ لگا ہے، جو دنیا کے سب سے زیادہ ہجوم اور بھیڑ بھاڑ والے علاقوں میں سے ایک بننے والے اس جغرافیائی مقام میں ڈرائنگ روم اور نقاش خانہ میں تبدیل ہو چکا ہے،، جوں ہی کوئی انسان اس میں داخل ہوتا ہے تو وہ اپنے آپ کو ایک ایسے نوجوان فنکار، آرٹسٹ بلال ابو النحل کی خوبصورت اور شاندار تخلیقات کے درمیاں پاتا ہے، جنہوں نے اپنے عمدہ دور میں اپنے قلم اور نب کے ذریعے نسل کشی، تباہی و بربادی اور بہرے پن و گرانی گوش کا مقابلہ کرتے ہوئے اس خیمے کو نگار و نقاش خانہ میں تبدیل کر دیا ہے_

26 سالہ ابو النحل جن کو اپنے پیشہ وارانہ فن کو جاری رکھنے کے لیے نہ تو جنگ کے حالات اور حوادث زمانہ روک پائے، نا ہی بندوق کی گولیوں سے وہ ڈرے اور نا ہی میزائلوں کی بوچھاڑ نے ان کا بال بیکا کیا، وہ غزہ و اہل غزہ اور اپنے لوگوں کی پینٹنگز اور نقاشی کرتے ہیں، باحیات اور شہداء کی ڈرائنگ اور نقش کشی کرتے ہیں، ایک سال سے زائد عرصے سے اپنے روز مرہ معمولات اور مشاہدات کی نگرانی کر رہے ہیں، اور پینٹنگز اور نقش و نگار سے مزین نائلون سے ڈھکے ہوئے خیموں کی دیواروں کو اپنی تخلیقات کی نمائش کا ایک ذریعہ بنا لیا ہے_

بلال بیچارے ثقل سماعت سے جھونجھ رہے ہیں، بہرے ہیں، وہ لوگوں کے غموں اور دکھ درد کو نہیں سن سکتے، لیکن وہ آپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں، اسے محسوس کر سکتے ہیں، اور سمجھ سکتے ہیں کہ کس طرح لوگ اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں_ وہ ایسے شخص ہیں جو نقل مکانی کے متعدد ادوار سے گزر چکے ہیں، جنہوں نے اپنے بہت سارے عزیزوں، رشتہ داروں، اور دوستوں کو کھو دیا ہے، چنانچہ انہوں نے غزہ کے دکھ درد کو سرمئی رنگوں میں نقش کشی کی ہے، جبکہ وہ جنگ و جدل اور جارحیت سے پہلے لوگوں کے قصے کہانیوں کو خوشیوں میں رنگا کرتے تھے اور نقش کشی کرتے تھے_

ابو النحل ڈرائنگ اور پینٹنگز کے بیحد شوقین ہیں، چنانچہ انہوں نے سب سے پہلے کاغذ پر پینٹنگ اور تصویر کشی شروع کی، پھر دھیرے دھیرے وہ تختوں اور دیواروں پر پینٹنگز اور نقش نگار کرنے لگے، اور علاقے میں گرافٹی فن کے تخلیق کاروں میں ان کا نام شمار ہونے لگا، اور بہترین فنکار، مصور اور آرٹسٹ بن کر سامنے آئے_ اپنے اردگرد لوگوں کو اشاروں کی زبان کا استعمال کرتے ہوئے بتایا کہ دیواری پینٹنگز ہی دنیا سے بات کرنے اور اس سے مخاطب ہونے کا سب سے آسان طریقہ ہے، جبکہ وہ پورٹریٹ جن میں انہوں نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا اس سے لوگوں کے درمیان قربت اور بڑھ گئی_

جنگ سے پہلے ایک پینٹنگ کو مکمل کرنے میں تقریباً دس دن لگ جاتے تھے، وہ پارک اور باغیچوں میں لہو و لعب میں مشغول اور تفریح کرتے ہوئے بچوں کی تصاویر بناتے تھے، اسی طرح غزہ کے ساحلی سمندر پر انسانوں اور ان کی زندگیوں سے بھرپور مناظر کی نقش کشی کرتے تھے، لیکن 7 اکتوبر 2023 کے بعد، سیاہ اور سفید رنگ سے پینٹنگز کرنے لگے، جو لوگوں کے دکھ درد اور ان پر ظلم و جبر کی عکاسی کرتی ہے_

تارکینِ وطن نوجوان فنکار آرٹسٹ بلال ابو النحل کے خیمے میں نئی فنکارانہ تخلیقات اور پینٹنگز کا دیدار کرنے جاتے ہیں، ان کی زیارت کرتے ہیں اور میزائلوں کی بارش کے چلتے پوری مہارت کے ساتھ بنائی گئی پینٹنگز پر تعجب اور حیرت کا اظہار کرتے ہیں_ ابو النحل کی انگلیوں کے پوروں سے نقش کی گئی خوبصورت پینٹنگز جن کا لوگ مشاہدہ کر رہے ہیں اس نوجوان کی ہے جو بولنے سے قاصر ہے کیونکہ کہ وہ گونگے ہیں، لیکن وہ الفاظ کے ذریعے نقش کشی کرنے پر مہارت رکھتے ہیں، وہ تمام زائرین کو مدہوش کرتے ہیں، لوگ آتے ہیں اور تصاویر اور پینٹنگز کا فوٹو لیتے ہیں اسی طرح لوگ پینٹنگز کے سامنے اپنی سیلفی لیتے ہیں، لوگ اس نوجوان کی مسلسل کوششوں اور محنتوں کی قدر کرتے ہیں اور ان کے اس شغف اور دلچسپی پر حوصلہ افزائی کرتے ہیں_

ریاض الجایح جنہوں نے آرٹسٹ ابو النحل کو اپنے گھر میں پناہ دی ہے، ان کے ساتھ رہتے ہیں، عام طور پر ریاض خیمہ کے اندر ابو النحل کے پاس ہی بیٹھتے ہیں اور زائرین کا بھرپور استقبال کرتے ہیں اور ابو النحل کی طرف سے نیابت کرتے ہیں_ الجزیرہ نت کے مطابق، ان کا کہنا ہے کہ وہ بلال ابو النحل کے پاس صبح سات بجے سے رات دس بجے تک بیٹھتے ہیں، اور ابو النحل کا تعاون کرتے ہیں جب وہ اپنے قلم اور نب سے تخت اور بورڈ پر پینٹنگز بنا رہے ہوتے ہیں_ مزید کہا کہ میں نے ان کے لئے نقش خانہ بنایا ہے تاکہ غزہ میں جاری خطرناک تباہی اور جنگ کے باوجود آمدنی کا ایک ذریعہ بن سکے_

بلال کے ایک اور دوست مجدی موسیٰ ہیں جو روزانہ ان کے پاس آتے ہیں اور بلال کا سپورٹ اور تعاون کرتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، اور ثابت قدمی کو مزید مضبوط کرتے ہیں، ایک ویڈیو میں کہتے ہیں کہ جب وہ پینٹنگز کا بورڈ اٹھا رہے تھے: غزہ میں ہر چیز معدوم ہو چکی ہے، ہماری صلاحیتیں، ہماری امنگیں، ہمارے عزائم، ہماری خواہشات، ہمارے ادارے جو اس فن سے وابستہ تھے غزہ کی پٹی میں وحشیانہ درندگی اور جنگ کے نتیجے میں سب کچھ ختم ہو گیا ہے_

غزہ سے تعلق رکھنے والے ایک اور نوجوان یامین عویضہ ہیں جو یومیہ بلال کے خیمے کا دورہ کرتے ہیں اور جنگ کی کوخ سے پیدا ہونے والے ان کی صلاحیتوں اور ان کے فنی کاموں کی جم کر تعریف کرتے ہیں، انہوں نے بلال کے لیے خصوصی تعاون اور امداد کی اپیل کی ہے، تاکہ بلال کی روح میں پینٹنگز کے ذریعے ان کے اور اہل غزہ کے احساسات و جذبات کا اظہار کرنے والی تخلیقات پھوٹ پڑے_

بعد ازاں، خان یونس کے مدرسہ الاعدادیہ کے تربیتِ فنون کے استاد محترم جناب احمد الترتوری نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ بلال کا یہ خیمہ دراصل ارادہ و ہمت اور درپیش چیلنجز کی نمائندگی کررہا ہے جو فلسطینی عوام کو ممتاز بنا رہا ہے اور انہیں ایک الگ پہچان دے رہا ہے_ بلال جو اپنے قلم اور نب کے ذریعے پینٹنگز کرکے اپنے خصوصی طریقے سے مزاحمت کر رہے ہیں_ انہوں نے مزید کہا: تارکین وطن سے بھرپور علاقہ میں اس ڈرائنگ روم اور نقاش خانہ کا وجود ثابت قدمی اور چیلنج کا پیغام ہے_

الترتوری نے فلسطین اور عالم عرب کے ثقافتی اداروں اور تنظیموں سے درخواست کی ہے کہ ابو النحل کی تخلیقات پر توجہ دیں، اور انہیں اس مشکل حالات میں جس سے محصور غزہ کی پٹی میں ثقافتی ادارے گزر رہے ہیں ہر طریقے کی مادی و اخلاقی مدد فراہم کریں، جنہیں قابض افواج فلسطینیوں کے خلاف اپنی "وحشیانہ جنگ" کے حصے کے طور پر براہ راست نشانہ بناتی ہیں_

ابو النحل زخمی محصور ملک کی سرحدوں سے باہر جانے کا خواب دیکھتے ہیں، پڑوسیوں کے مطابق، ان کی یہ تمنا ہے کہ وہ بین الاقوامی ڈرائنگ نمائشوں میں شرکت کریں، جہاں وہ اپنی پینٹنگز اور ڈرائنگ کی نمائش کریں اور غزہ کی آواز بنیں ، 17 سال سے زائد عرصے سے غزہ کی پٹی پر سخت محاصرے کی وجہ سے اپنی فصیل سے باہر پرواز کرنے سے محروم ہیں، غزہ کے آسمان کو بھرنے والے راکٹوں کی مسلسل بارش، دھماکوں اور ان کی ہلاکتوں و تباہیوں سے دور رہیں_

عربی سے ترجمہ : ظفر ہاشم مبارکپوری




Saturday, October 26, 2024

هديةُ كتاب

 


هديةُ كتاب

✍️ ظفر هاشم المباركفوري/ نيو دلهي - الهند 

تعد أفضل هدية في العالم يقدمها إنسان لآخر هي هدية كتاب، و هذا النوع من الهدايا سامي و هادف، حيث تكون الهدية لها مكانة خاصة و قيمة عندما يهديها مؤلف الكتاب نفسه.

في أحد الأيام، أهداني أديب بارع و كاتب بارز من السعودية هديةً قيمة جميلة، كنت أنتظرها بشغف و أترقب وصولها منذ تم إرسالها إلى الهند. و هذه الهدية كانت ذات أهمية بالغة عندي لأنها جاءت من شخص عظيم و من مكان بعيد جداً.

  في يوم ما كنتُ أتناول طعام الغداء في غرفتي، رنّ هاتفي فجأة ، قلت : مرحباً من حضرتك ، قال : "أنا ساعي البريد". هل أنت ظفر...؟

قلت : أجل…

قال : لك طرد في البريد يجب أن تأتي لتستلمها…

أجبته : أنا قادم.

 بعد أن حصلت على هذا الطرد، عدت إلى المنزل و فتحته و أنا في غاية السرور، أطير فرحاً، و أشعر بالنشاط.

إنه جميييل كثيييير، ماشاء الله تبارك الرحمن..

كانت هذه الهدية هي كتاب اسمه "خيانة ورق" أهداني إياها الكاتب الأديب السعودي عبد الباري أحمد الدخيل حفظه الله و رعاه. 

تعرفت على الكاتب الأديب من خلال مجموعة تفاعلية على تطبيق التليجرام ، وقتها أرسل الكاتب صورة الكتاب ليشاهده أعضاء المجموعة، عندما رأيته في تلك اللحظة سألت الكاتب -حفظه الله و رعاه- عن هذا الكتاب و عن كيفية الحصول عليه في الهند و هل هو موجود هنا، فأجابني فجأة : إذا ممكن كتابة العنوان البريدي لأرسل لك نسخة -إن شاء الله- و سيصلك قريباً بإذن الله تعالى.

الحمد لله، تم بفضل الله تعالى وصول الكتاب، و هو بحوزتي الآن.

نبذة عن حياة الكاتب 

عبد الباري أحمد الدخيل من مواليد جزيرة تاروت، تلقى التعليم فيها.

-عمل في وزارة البترول و الثروة المعدنية في الرياض.

-يعمل حالياً في إدارة العلاقات العامة و الإعلام في بلدية محافظة القطيف.

-أنهى عدة دورات تدريبية في العمل الإعلامي و الصحفي.

-أدار عدد من الندوات و المحاضرات و الحوارات التلفزيونية.

-قدم ورش عمل في المجال الإعلامي و الصحفي.

-شارك في التمثيل في عدة أفلام أنتجتها مؤسسة قيثارة للإنتاج الفني منها :

"المهمة الصعبة"،"في بيتنا موهوب"، "الصفيح" ، ثلاثون يوماً" و غيرها.

-نشرت له قصائد شعرية و قصص قصيرة و مقالات في بعض الصحف و المجلات السعودية و عدد من المواقع الالكترونية.

-صدر له عدد من الكتب من بينها:

"من مناقب اهل البيت"، 

"السلفيون و الشيعة تجربة حوار"، 

"الوطن للجميع"، 

"مشهد للتواصل و الانفتاح الوطني"،

"أوراق ليست للبيع"،

(مصدر: منتدى الثلاثاء الثقافي)

تعريف بالكتاب

اسم الكتاب "خيانة ورق“ و هو مجموعة قصصية جديدة للكاتب الأديب عبد الباري أحمد الدخيل. 

كل قصة منها تتناول موضوعاً مختلفاً. و تعرض تجربة إنسانية فريدة.

صدرت المجموعة القصصية عن دار الانتشار العربي في لبنان.

تحتوي هذه المجموعة القصصية على 25 قصة قصيرة.

يفتتح الكتاب بمقدمة يطرح فيها الكاتب مجموعة من الأسئلة

مثل كيف صبرنا على الغياب ؟ 

كيف سامحنا ؟

كيف خفنا و ندمنا ؟

كيف خانتنا براءة الأطفال و ظننا أن وراء الحب وردة ؟

كيف متنا ألف مرة ؟

كيف أخفينا الأشواق في أكياس ورقية ؟

و كيف تعودنا على نسيان المواجع ؟

 و غير ذلك....

ثم يبدأ بسلسلة من القصص القصيرة الرائعة الشيقة و في القصة الأولى يتناول الكاتب موضوع الأمومة تحت عنوان "أيتها السماء إنها أمي".

يذكر فيها عن أحوال منزله، هناك توجد مكتبة صغيرة في المنزل. و أفراد أسرته مثقفون و مهذبون، و أمه الكريمة تنحدر من عائلة عريقة في العلم و الأدب، فوالده الشفيق وجيه البلد. وعمها شاعر. يحترم بعضهم البعض و يلقون بابتسامة، و لا يعلو صوتهم على صوت الأب. ولا مجال لمخالفة أمر الأم.

و بعده، تبدأ القصة الثانية بعنوان "بابا العظيم". فيها يبين المؤلف أن أبيها صارع قرشاً، واستطاع النجاة من بين أسنانه.

ثم القصة الثالثة "مذكرات رغيف" يذكر فيها ذكريات الماضي.

والرابعة "شظايا تقاوم الغياب" والخامسة "سماء لا تسكنها الغيوم" والسادسة "أنتِ وحدكِ هنا".

هكذا يذكر الكتاب جميع القصص من البداية إلى النهاية بكل اهتمام و بشكل جدي.

و تتميز قصص المجموعة بأسلوبها المشوق الذي يأسر القارئ حتى النهاية.

هذه المجموعة القصصية من أمتع ما قرأته للكاتب عبد الباري، أنا أعشق كل ما كتبه هذا الكتاب البديع.

استخدم عبد الباري أحمد الدخيل أسلوبًا أدبياً سرديًا يمزج بين البساطة و التعمق، مما يجعل القارئ يندمج في القصص.

تمتاز لغة أحمد الدخيل في هذا الكتاب بالبساطة و البلاغة في آن واحد.

أثرت هذه المجموعة القصصية "خيانة ورق" فيّ بشكل عميق. استمتعتُ بأسلوب الكاتب السلس و مشاعره القوية. كل قصة تحمل أهمية بالغة، أنصح الجميع بقراءته فكل قصة ذات أهمية بالغة، فهو يستحق أن يكون في مكتبات القراءة و المطالعة لمحبي الأدب القصصي.

26 أكتوبر 2024م

Sunday, October 13, 2024

دنیا کا سب سے عظیم تحفہ کتابوں کا تحفہ💎


 دنیا کا سب سے عظیم تحفہ کتابوں کا تحفہ💎

تعارف و تبصرہ مع قصہ "زہریلی روشنی"

ظفـــــــر ہاشـــــــــــم اعـظـــــــــــمی

دنیا میں کتابوں کا ہدیہ سب سے عظیم، عمدہ، قیمتی اور بیش بہا ہدیہ مانا جاتا ہے، اور یہ اس وقت عظیم تر بن جاتا ہے جب اس کے لکھنے والا از خود ہدیہ کرتا ہے☺️، اور اس وقت اور بھی زیادہ بلکہ عظیم ترین بن جاتا ہے جب ایک تحفہ، ایک گفٹ، ایک ہدیہ میلوں کا سفر طے کرکے، دور دراز ممالک کا چکر کاٹ کر، سمندروں کو پار کرتے ہوئے آتا ہے تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا_

اسی طرح کا ایک بہت ہی خوبصورت، پیارا اور نایاب ہدیہ کروڑوں میل کے فاصلے سے، نہ جانے کیسے کیسے مراحل طے کرتے ہوئے، کئی بحور اور سمندروں کو پار کرتے ہوئے، جب مجھ تک پہنچا میرا دل خوشی سے جھوم اٹھا، یہ مجھے ایک خواب سا لگ رہا تھا_

ہوا یوں کہ بروز جمعرات دوپہر کے وقت ایک نئے نمبر سے کال آتی ہے، نمبر دیکھتے ہی مجھے احساس ہوا کہ ضرور یہ ڈاکیہ ہوگا، فوراً میں نے کال ریسیو کی، آواز آئی ظفر۔۔۔ میں نے کہا جی،۔۔۔

آپ کا پارسل آیا ہوا ہے،۔۔۔

میں نے کہا صاحب بس ایک منٹ دیجئے،۔۔۔۔۔۔۔۔

الحمد للہ پارسل موصول ہوا، میں بے انتہا خوش تھا، سب سے پہلے میں نے پارسل کھولا، الٹ پلٹ کر دیکھا، دیکھتے ہی خوشی کے سمندر میں ڈوب گیا_

بعد ازاں میں نے سب سے پہلے صاحب کتاب کو شکریہ کا ایک خط ارسال کیا_

یہ کتاب در اصل سعودی عرب کے ایک مایہ ناز صحافی، ادیب محترم جناب عبد الباری احمد الدخیل (حفظه الله و رعاه) کی نایاب اور عمدہ تصانیف میں سے ایک ہے_ ایک گروپ میں ہلکی پھلکی شناسائی ہوئی تھی، گروپ ہی میں نے یہ کتاب دیکھی، مجھے پسند آئی تو میں نے میسج کیا کہ ہندوستان میں کہاں دستیاب ہے_

انہوں نے فورا پرسنل پر رابطہ کیا، 

لکھا:

آپ اپنا مکمل پتہ ارسال کر دیں،

اور پھر نام وغیرہ پوچھا،

میں نے سوال کیا، ڈاک خرچ وغیرہ.......

جواب ملا...

مجاناً و هديةً۔۔۔۔۔

میں تھوڑی دیر کے لیے حیران تھا کہ ابھی اتنی جان پہچان بھی نہیں ہوئی تھی_

خیر میں نے مکمل پتہ بھیج دیا، کہنے لگے کہ ان شاءاللہ یہ کتاب جلد ہی آپ کے ہاتھوں میں ہوگی_

میں نے انکا شکریہ ادا کیا،

جواب ملا، 

لا شكر على واجب۔

کہا کہ یہ میرے لئے باعث مسرت اور خوشی کا مقام ہے کہ میری کتابیں ہندوستان میں بھی لوگ پڑھ رہے ہوں_

عبد الباری احمد الدخیل کون ہیں؟

صاحب کتاب کا مختصر تعارف

عبد الباری احمد الدخیل جزیرہ تاروت میں پیدا ہوئے، جزیرہ تاروت یہ سعودی عرب کا ایک جزیرہ ہے جو خلیجِ عرب میں واقع ہے، وہیں پر انہوں تعلیم و تربیت حاصل کی_

"الریاض" کے اندر وزارتِ پیٹرولیم اور معدنی وسائل میں انہوں نے کام کیا، فی الحال وہ "القطیف" میں تعلقات عامہ اور انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں خدمات انجام دے رہے ہیں_

انہوں نے میڈیا اور صحافتی کاموں کے متعلق کئی تربیتی پروگرام بھی کروائے ہیں_

متعدد سیمینار، محاضرات اور ٹیلیویژن کے مکالمے بھی سر انجام دیے ہیں_

انہوں نے میڈیا اور صحافتی میدان میں ورکشاپ بھی کیے ہیں_

بہت سارے شعری قصائد، قصص قصیرہ اور مختلف عنوانات پر بےشمار مضامین لکھے ہیں جو سعودی عرب کے اخبارات اور مجلات میں شائع ہوئے ہیں_

انہوں نے متعدد کتابیں بھی لکھی ہیں_

ان کی کتابوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں:

من مناقب اهل البيت.

السلفيون والشيعة تجربة حوار. 

الوطن للجميع.

مشهد للتواصل والانفتاح الوطني.

أوراق ليست للبيع.

خيانة ورق.

مذکورہ کتابیں عبد الباری احمد الدخیل کی خوبصورت تصنیفات ہیں_

انہی بیش بہا کتابوں میں سے ایک قیمتی کتاب "خيانة ورق" ہے جس کا تعارف یہاں مقصود ہے_

کتاب کا مختصر تعارف 

کتاب کا نام "خيانة ورق" ہے، کتاب عربی زبان میں ہے، سرورق بہت ہی جاذب نظر ہے، یہ ایک مجموعۂ قصص قصیرہ ہے، کتاب کے مکمل صفحات 124 ہیں_

صفحات بہترین کاغذ کے اور بہت ہی عمدہ ہیں_

کتاب میں کل 25 قصے ہیں جو بہت ہی شیریں اور سلیس زبان میں لکھے گئے ہیں_

کتاب لبنان میں دار الانتشار العربی سے شائع ہوئی ہے_

کتاب میں مختلف موضوعات پر چھوٹے چھوٹے قصے مذکور ہیں_ جو قاری کے دلوں کو موہ لیتے ہیں، اور جب قاری پڑھتا ہے تو بس پڑھتا ہی چلا جاتا ہے_

کتاب کی ابتداء "أيتها السماء إنها أمي" (اے آسماں یہ میرے امی ہیں) سے ہوتی ہے یہ پہلا قصہ ہے، جبکہ دوسرا قصہ ہے "بابا العظيم" پیارے ابو جان"_ مذکورہ کتاب آخری قصے "زہریلی روشنی" پر ختم ہوتی ہے_ 

زیر نظر کتاب کے تمام قصے لاجواب اور عمدہ ہیں_

اس کتاب کے آخری قصے کا میں نے اُردو ترجمہ کیا ہے، امید ہے قصہ آپ کو پسند آئے گا_،

زہریلی روشنی

نومبر کا مہینہ تھا، ہمارے ساحلی شہر میں موسم خوشگوار تھا، فضا معتدل تھی، ہمارے والد صاحب نے پلان بنایا کہ آج بروز اتوار بعد العصر سمندر کے کنارے ایک حسین و خوشگوار لمحات گذاریں گے_

ساحلی سمندر پر ایک خوبصورت وقت گذارنے، دل کو سکون پہونچانے اور فرحت و نشاط کی تجدید کے لیے یہ ایک بہترین موقع تھا، اور خاندان کے دیگر افراد سے ملاقات کا بھی ایک عمدہ چانس تھا_

علاوہ ازیں، ہمیں مچھلی پکڑنے (Fishing) اور تیراکی (swimming) کا بھی ایک اچھا وقت ملے گا جو ہمارا مشغلہ (Hobby) رہا ہے_

ہم لوگ اپنی کار سے نکل پڑے، سمندر کی طرف رواں دواں تھے، آگے جا کر ایک جگہ روڈ پر ہم لوگ ٹھہرے، کیا دیکھتے ہیں کہ ایک زبردست ٹریفک اور جام لگا ہوا ہے، ایک حادثے کی وجہ سے ساری گاڑیاں ایک جگہ جمع ہو گئی ہیں، ایک ٹرک پلٹ گیا تھا، جس کی وجہ سے راستہ بلاک اور بند کر دیا گیا، گویا کہ سامنے ایک پہاڑ ہے جو آنے جانے والوں کے لیے رکاوٹ بن گیا ہے_

میں اپنے والد صاحب کے ساتھ کار سے اترا تاکہ قریب سے جاکر حادثے کا معائنہ کریں، اسی وقت ایک زور دار دھماکہ کی آواز آئی، سورج کی شعاعوں کی طرح پوری فضا منور ہوگئی_

زمین ہل گئی، لوگ اِدھر اُدھر بھاگنے لگے، بعض گاڑیوں کی کھڑکیاں بھی ٹوٹ گئیں، عورتوں اور بچوں کی چیخیں بھی سنائی دینے لگیں_

ایک منٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر روشنی غائب ہوگئی، اور کانوں میں دھماکوں کی آوازیں اب بھی باقی تھیں_

جبکہ ہر ایک اِدھر اُدھر بھٹک رہا تھا، دھماکوں کی وجہ سے آسمان سے پرندے نیچے گرنے لگے ایسا لگ رہا تھا کہ موسلادھار بارش ہو رہی ہے اور ہمارے جسموں پر اولے پڑ رہے ہیں_ اور جب یہ اولے کھڑی ہوئی گاڑیوں پر گرے تو ایک بھیانک آواز آنے لگی_

میرے والد صاحب کو سانس میں کچھ دقت پیش آرہی تھی، آواز ہلکی ہو گئی، ان کے اعضاء میں اینٹھن اور بدن میں کھینچاؤ آگیا تھا، آنکھوں سے خون نکلنے لگا، مردوں اور عورتوں کا ایک جم غفیر موسم خزاں کے پتوں کی طرح ہمارے اوپر گرنے لگا_

اس کے بعد بیکٹیرل آلودگی کے سد باب کی ایک ٹیم نے ہمیں کورنٹین کر دیا، مجھے اخبار کے ذریعے معلوم ہوا کہ یہ وائرس صرف اور صرف چالیس سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو ہی ہوتا ہے_

اتوار - 13 اکتوبر 2024ء

9 ربیع الثانی 1446ھ



Sunday, September 22, 2024

Child Upbringing

 Child Upbringing

Zafar Hashim Azmi

The upbringing of children is deeply significant and highly valued in Islam.

Islamic principles place a great emphasis on the proper raising of children.

The Messengers and Prophets (peace be upon him) also emphasized nurturing and raising their children.

Children are a very precious gift of Allah Almighty. It's one of the greatest blessings of Allah S.W.T.

He bestows children whom He wants and Deprives of whom He does not want.

Allah SWT says in the Holy Qur'an:

18. If you count the bounties of Allah,

you cannot count them all. Surely,

Allah is Most-Forgiving, Very-

Merciful.

(Surah Al nahl - 18)

Allah Almighty says in another place:

49. To Allah belongs the kingdom of

the heavens and the earth. He creates

what He wills. He grants females to

whom He wills, and grants males to

whom He wills.

50. Or He combines for them couples,

both males and females, and makes

whom He wills barren. Surely, He is

All-Knowing, Very-Powerful.

(Surah Al shura - 49,50)

If Allah SWT blesses someone with a baby, they should organise an Aqiqah for the newborn according to the Sharia and choose a beautiful name.

What is Aqiqah?

Aqiqah is an Islamic ritual performed upon the birth of a child. This ceremony expresses thankfulness to Allah S.W.T for blessing the family with offspring.

Children are a very big asset of the future that the parents have a great responsibility to look after and take care of them sincerely and honestly.

There are some easy ways of raising and nurturing our children. Doing this we can easily raise and nurture them well.

These are as follows:

1- The father who enters his home knocking the door and saying Assalamu Alaikum, then, meets his children and wife with a beautiful smile.

At that moment, he may teach three things.

1- Asking permission while entering the house.

2- Greeting.

3- Meeting with a smiley face.

2- The parents who respect their fathers and mothers and express their love and affection towards them. Seeing it, their children also will do the same, they will also give respect to their parents, obey their orders and comply with their words.

3- The parents who extend their helping hands towards their wives in their house' works. Their children will learn the lesson by it. They will also try to assist their parents in their works, as well as they will try to help others.

4- If mothers care for wearing Hijab and Niqab, perform Salah five times a day with punctuality, recite the Holy Qur'an daily in the houses, spend their time in remembering Allah and glorify Him, then, their daughters and sons will learn the lesson by this activities and it would be a great lesson and the best upbringing.

Their daughters will also try to put on Hijab and Niqab, they will also recite the Holy Qur'an and perform daily prayers, and get busy in remembering Allah SWT and glorifying Him like their mothers.

Likewise, it is a responsibility for the parents that they must tell the children moral and ethical stories that benefit them and make them also learn some important supplements and Duas.

5- Living together with love and affection, agreeing on any issue in front of the children, managing their works with mind and peace, behaving children with well manners and good ways, avoiding to fight before the children, talking with a low voice, all would be useful and beneficial for them. The children will learn a lot from them, they will also try to spend their time with love and peace inside the house and its outside. They will respect elders and talk to them mannerly.

6- A father who takes an opinion from his wife and children in some works and shows respect for their opinions and views, it would be a positive thing for their children to take an opinion from others.

7- A sincere and faithful Father always teaches their children truthfulness, sincerity, honesty, loyalty and fidelity. He always refrains from lying, deceiving, conning and cheating.

A father who makes a promise to his children and raises hopes for the future, and then makes good on their promise, additionally he abstains from breaking the promise. In this way, he teaches them how to make a promise and how to fulfil it.

8- The parents who maintain cleanliness in the house and keep everything organized and in a proper way, and manage their tasks accordingly, reviewing that the children will also try to do the same.

Today, it is an era of social media. Every one has a smartphone, even children use it. We see that some schools and colleges create their own whatsapp group to send homework, daily study material and so on, they further organize online classes. The children are compelled to use mobile due to it. In this situation, it's parents' responsibility that they must monitor and watch their children, whether they are doing online classes or not, or they are just wasting the time.

If the children watch any videos, the parents should oversee them.

However, watching and monitoring children is very essential. Parents also avoid giving them mobiles especially during the class. If they give them in any situation, they should take care and monitor them.

Nowadays, we also see that the Qur'an and Tajweed are taught in the Masajid of our villages and cities, and basic Islamic Knowledge and supplements are memorized to them. Furthermore, Salah, and another important Islamic deeds are taught and exercised. We should send them to the Masajid so that they can learn and take advantage of it, and transform it into their lives.

May Allah bless us and grant us Taufiq to serve humanity! Ameen!

22 September 2024



Saturday, September 14, 2024

جان بچی لاکھوں پائے


 افسانــــــــــــہ

                  سلسلــــــــــہ نمبــــــــر : 2

         جان بچی لاکھوں پائے !!!

         ظفر ہاشم مبارکپوری

دو پہر کا وقت تھا، چلچلاتی دھوپ تھی، گرمی اتنی شدید تھی کہ باہر کھڑے رہنا ایک سیکنڈ کے لیے بھی محال تھا، آج کل کے بچوں کو اسمارٹ واچ پہننے کا بیحد شوق ہے، زید بھی ان ہی میں سے ایک تھا وہ بہت ہی چالاک اور ذہین و فطین لڑکا تھا، اپنی کلائی میں پہنی ہوئی الٹرا واچ میں بار بار ٹائم دیکھ رہا تھا، ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی چیز کا بے صبری سے انتظار کر رہا ہو،

 بعد ازاں جلدی جلدی ضروری سامان اور زاد راہ وغیرہ لگیج بیگ میں پیک کرنے کے بعد اہل خانہ سے بخوشی ملا اور الوداعی کلمات کہتے ہوئے گھر سے روانہ ہو گیاـ

پوں، پوں، پوں، پوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بس کے ہارن کی آواز بہت تیزی سے آ رہی تھی، بس قریب آکر رکی، زید بھی بس میں سوار ہو گیا، شاید یہ بس زید کے گاؤں سے دلی جا رہی تھی_

زید کا یہ سفر کافی لمبا سفر تھا، یہ ایک پرائیوٹ اے سی بس تھی، بس دیکھنے میں جدید بالکل بھی نہیں لگ رہی تھی، ایسا لگ رہا تھا جیسے سروسنگ ہوئے کافی عرصہ ہو گیا ہو اسی پر بس کو دُھونا اور چلایا جا رہا ہے_

ایک وہ زمانہ تھا جب اے سی بس کا نام ونشان بھی نہیں تھا، لوگ بیل گاڑی، گھوڑا گاڑی وغیرہ سے سفر کیا کرتے تھے، لمبے لمبے سفر کرنے کے لیے کافی تھکان ہو جاتی، پریشانی اور مشقت بھی اٹھانی پڑتی تھی_

خیر مسافروں کی ایک بڑی تعداد جوق در جوق سوار ہوتی رہی، آخر کار کچھ ہی لمحوں میں بس پُر ہو گئی، ہر ایک مسافر اپنی اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے،  بس میں بچے، بوڑھے، نوجوان ہر عمر کے لوگ نظر آ رہے تھے_

اس بس میں نہ جانے کتنے لوگوں کے کیسے کیسے خواب ہوں گے جو اسے شرمندہ تعبیر کرنا چاہتے ہوں، 

ہر ایک کا سفر کرنے کا اپنا کوئی نہ کوئی مقصد ہوگا، 

کوئی دلی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مقصد سے سوار ہوا ہوگا، تو کوئی رزق حلال کے لیے اپنے بال بچوں کی خاطر سفر کر رہا ہوگا_

کوئی کمپنیوں میں بہترین ملازمت کے لئے پابہ رکاب ہوا ہوگا، تو کوئی دلی کے معروف و مشہور اسکولس، کالجز اور یونیورسٹیوں، جیسے جامعہ ملیہ اسلامیہ، جواہر لال نہرو، دلی یونیورسٹی، جامعہ ہمدرد، نیتا جی سبھاش یونیورسٹی، اندرا گاندھی نیشنل اوپن، ایس ٹی اسٹیفن کالج وغیرہ میں داخلہ کے لیے روانہ ہوا ہو_

ہر فرد کے اپنے ایک خواب ہوں گے، جو وہ اسے پورا کرنے کی غرض سے مسافر بنے ہوئے ہوں_

ممکن ہے بس میں ایسے لوگ بھی ہوں جو دلی کی سیر و تفریح کرنا چاہتے ہوں، وہاں کے مناظر سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہوں،

دلی کی "جامع مسجد" دیکھنا چاہتے ہوں یا "قطب مینار" کی سیر کرنا چاہتے ہوں،

"ہمایوں کا مقبرہ" کا دیدار مقصد ہو، یا پھر "لال قلعہ" کی چہار دیواریوں میں مستیاں اور اس کے حسین و جمیل مناظر سے لطف اندوزی ہو،

ہندوستان کی ایک اہم اور بڑی یادگار "انڈیا گیٹ" کی تفریح کا ارادہ ہو یا پھر مغل گارڈن کی سیر و تفریح،

بہائی عبادت خانہ "لوٹس ٹیمپل" دیکھنے کی خواہش ہو یا پھر مہاتما گاندھی کی آرام گاہ "راج گھاٹ" دیکھنے کا شوق_

مسافرین میں چند ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو بیچارے اپنی بیماریوں سے جھونجھ رہے ہوں گے اور مجبورا انہیں سفر کرنا پڑ رہا ہے تاکہ دلی کے بہترین ہسپتال جیسے ایمس (AIIMS)، اپولو (Apollo)، ہولی فیملی (Holy Family)، میکس ہاسپٹل (Max Hospital) وغیرہ ہسپتالوں میں علاج کرا سکیں_

ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو اپنے خاندان کے کسی فرد کو خارجی ممالک کے سفر کے لیے دلی ایئرپورٹ چھوڑنے جا رہے ہوں_

بس میں سوار مسافروں میں ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو بغرض تجارت دلی کی مشہور مارکیٹوں سے جیسے "گاندھی نگر، چاندنی چوک، خان مارکیٹ، کنات پلیس، کرول باغ، سروجنی نگر" وغیرہ سے مال و دیگر ساز و سامان خریدنے جاریے ہوں_

مختصراً یہ کہ ہر قسم اور ہر طرح کے لوگ ہونگے، ہر ایک اپنے میں مگن تھا،کسی کے چہرے پر خوشی تھی تو کسی کے چہرے پر اداسی،

کوئی اپنے کان میں مہنگے اور قیمتی ایئر پوڈ اور ایئر بَڈ لگائے ہوئے ہے تو کوئی رخیص اور سستہ وائرڈ ایئر فون اور ہیڈ فون،

کوئی موبائل سے کسی باتیں کر رہا تھا تو کوئی برابر والی سیٹ  سے ہم کلام،

الغرض ہر ایک اپنے میں محو تھا،

ادھر بس نے بھی اچھی خاصی رفتار پکڑ لی تھی، ڈرائیور مست ہو کر بس چلائے جا رہا تھا، بس ابھی گاؤں سے کچھ ہی دور کے فاصلے پر پہنچی تھی، تقریباً تیس پینتیس کلومیٹر کا سفر طے کر چکی تھی، 

زید کے گاؤں سے دلی کی مسافت تقریباً 900 کلومیٹر ہے،

اچانک ڈرائیور کیا دیکھتا ہے کہ بس کے آگے سے دھواں اٹھنا شروع ہوا اور آہستہ آہستہ دھواں تیز ہونے لگا، ڈرائیور کو احساس ہوا کہ کچھ تو گڑبڑ ہے موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے فوراً اس نے بس سڑک کے کنارے پارک کی، اور مسافرین سے گویا ہوا کہ آپ لوگ آرام سے ایک ایک کرکے بس سے نیچے اتر جائیں، بس میں کچھ خرابی آ گئی ہے اور افراتفری بلکل بھی نہ کریں آرام سے اتریے، ابھی یہ دھواں آگ نہیں بنا تھا، تب تک جمیع مسافرین ایک ایک کرکے بس سے نیچے اتر گئے تھے_

جیسے ہی سب لوگ اتر چکے، دھواں آگ میں تبدیل ہو گیا تھا، پھر آگ بڑھتی گئی، بس میں آگ بجھانے کے آلات بھی موجود نہیں تھے، آگ اتنی زبردست ہو گئی کہ اب آگ بجھانا بھی نا ممکن تھا، وقت پر فائر بریگیڈ والے بھی نہیں آسکے، ادھر آگ بجھانے کا کوئی ساز و سامان نہیں، آگ کی تپش کئی میٹر تک محسوس کی جا رہی تھی، 

بالآخر، بس جل کر خاک ہوگئی، ریزہ ریزہ ہوگئی، بس کے اندر کچھ بھی نہیں بچا تھا، صرف ملبہ باقی تھا، 

بیچارے مسافرین دور کھڑے ہو کر سارے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور کر بھی کیا سکتے تھے،

زید بھی ایک طرف کھڑا ہوکر اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا اور اس کی زبان سے یہ کلمات نکلے"جان بچی لاکھوں پائے"-

اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آج اللہ نے ہم سب کو ایک بہت ہی بڑے اور خطرناک حادثے سے بچا لیا_

ہماری اماں جان کہا کرتی ہیں کہ بیٹا جب بھی گھر سے نکلا کرو یا کہیں سفر پر جایا کرو تو سفرِ دعا ضرور پڑھ کر نکلا کرو_

الحمد لله، میں نے گھر سے نکلتے ہوئے دعا پڑھی تھی اور میں دعا کا اہتمام بھی کرتا ہوں_

اللہ کا عظیم احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس ناگہانی سے محفوظ رکھا_

خیر بس جل کر بالکل بھسم ہوگئی تھی، اس کے بعد دھیرے دھیرے سب اپنے اپنے گھروں کو واپس جانے لگے کیونکہ اب دلی جانا ممکن نہیں تھا اور نہ ہی دوسری بس کا انتظام تھا، اور بس گاؤں سے بہت دور بھی نہیں نکلی تھی تو موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے لوگوں نے واپس اہل خانہ جانے میں ہی بھلائی سمجھی_

جان بچی لاکھوں پائے ۔۔۔۔۔

جان ہے تو جہان ہے

زندگی ہے تو خواب ہے


سنیچر - 14 ستمبر 2024ء -- 10 ربیع الاول 1446ھ

Sunday, September 8, 2024

انكســــــــر العــــــــظـــــــم

         


            انكســـــــــر العـــــظــــم

كان "طارق" جالساً على كرسي مريح في الفصل الدراسي ، يطالع الكتب بكل إهتمامٍ و دقةٍ ، يغوص في بحور العلوم فيها. 

أستاذنا الفاضل لم يتمكن من الحضور إلى المدرسة ، لأنه في إجازة طارئة.

كان الجو يومها غائماً بالسحب الكثيفة داكنة اللون ، و تهب رياح شديدة السرعة كالقطار السريع. 

قبل ذلك الحال كان الناس مضطربين يصيبهم القلق جراء الحر القارص ، و المطر محبوس عنهم منذ أيام ، لذلك تجمع الناس في الميدان الواسع ، صلوا صلاة الاستسقاء و دعوا الله تعالى بنزول المطر و لكن لم تمطر في ذلك اليوم.

و بفضل اللّٰه تعالىٰ و كرمه ، كان الطقس اليوم رائعاً جميلاً ، يبدو عليه طقس يبشر  بنزول المطر بغزارة ، و فجأة سمعت صوتاً عالياً مروعاً  كالعاصفة القوية.

طارق،،،،طارق !!

نعم يا شعيب ، ماذا هناك ؟ 

تعال انظر هنا.

حيث بدأ المطر ينزل رذاذاً ، ثم ما لبث و تحول لسقوط زخات كثيرة.

لقد كان الصوت القادم ثقيلاً مخيفاً ، خرجت لأستمتع بالطقس الرائع خارج الفصل الدراسي و أستنشق الهواء الطلق النقي - أنا (شعيب) و طارق زميلان في الدراسة - نحب بعضنا حباً شديداً ، حيث يعلم أهالي القرية بصداقتنا الجميلة ، و كانت هذه الصداقة قدوة حسنة لأهل القرية.

و نصيحتي لك أيها القاريء إن كنتَ صديقاً لأحدهم فلتكن صداقتكما كصداقتنا و أفضل. 

خرج طارق من الفصل و تقدم متعثراً، و كان يشعر بالفرح و السرور. و كان عندما يشاهد نزول المطر ينتهز الفرصة للَّعب تحته حيث كان مولعاً بذلك كثيراً و يسرُ به كثيراً.

و في مكان آخر خارج الفصل ، تجمّع العديد من زملاء الدراسة ،  منهم فهيم و فضل و طارق و عارف و أنا. 

كانت الأمطار تنزل بغزارة ، اتفقنا جميعنا أن نلعب تحت المطر و نستمتع و نمزح معا كثيراً.

فتوجهنا إلى حديقة تسمى *"الحَسِين"* تقع بقرب المدرسة و كانت هذه الحديقة كبيرة جداً ، هادئة و جميلة ، و تعتبر مكاناً استجمامياً رائعاً للزوار و السيَّاح . فيها العديد من الأزهار المنوعة و الملونة ، حيث يستمتع الجميع برائحتها العطرة و منظرها الخلاب.

و في تلك الحديقة الفخمة ملعباً رياضياً جميلاً ، امتلأ بالحضور حيث بدأوا يتنعمون بالغيث و يستمتعون بالجو الماطر و كانوا في غاية السرور و الهناء ، يلعبون تحت المطر ، و يَرْشُقون الماء على بعضهم البعض بفرح و سرور للغاية ،  و كان تساقط قطرات المطر كالنجوم المتلألئة البرَّاقة ، بعض الأصدقاء بدأوا بسباق الجري و بعضهم انشغل في لعبة أخرى و كان الفرح والسرور يعم الوجوه ، لقد كانت لحظات رائعة جميلة اشتغلوا فيها باللهو و اللعب و الغناء.

فجأة انتشر صوت مرتفع يدل على سقوط شيء ما ، و كان الجميع منتشراً هنا و هناك منشغلون بالمكوث تحت المطر بشغف ، لقد كان الحدث هو انزلاق في المكان جراء هطول المطر الغزير. 

  بصوت عالٍ ، سألني فضل ماذا حصل هناك ؟

صرخت ، ماذا حصل ؟ 

وصل عارف متلهفاً عند طارق.

طارق،،،طارق ماذا حصل لك يا غالي ؟ قد انزلق قدمي و وقعت على الأرض ، و أصابني جرح مؤلم.

اقترب باقي الأصدقاء بسرعة من صديقهم طارق و اطمأنوا على حالته و صحته . مدَّ عارف يده بسرعة على رجل طارق فاشتد عليه الألم ، قال طارق لا تمس رِجلي.

قال عارف : لماذا ؟ ماذا حدث ؟

فجأة تفوّه طارق و قال : انكسر العظم

فقام الجميع بنقل صديقهم طارق إلى المشفى لتلقي العلاج ، فتبدل حال الجميع مرة واحدة من الفرح و البهجة و الإستمتاع بالمطر  إلى الحزن فسبحان مبدل الأحوال. 

و بفضل الله تعالى تماثل طارق بالشفاء، و الحمد لله رب العالمين.


سلسلة من القصص القصيرة

القصة الثانية : انكسر العظم

بقلم : ظفر هاشم المباركفوري

تحريراً الأحد 8/أغسطس 2024

4 ربيع الأول 1446 

غزہ، تمہاری جد و جہد کے رہنما اصول!

  غزہ، تمہاری جد و جہد کے رہنما اصول!!! چار سو ستر دن سے زیادہ "غزہ" ہر اس شخص کے لیے "علم کا میدان اور آماجگاہ بنا ہوا تھا، ...