Wednesday, July 2, 2025

من مجريات الحياة اليومية -3

 من مجريات الحياة اليومية -3

في صباح هذا اليوم، و بينما كنت أقرأ صحيفة "ممبئى اردو نيوز"، شعرت بألمٍ شديدٍ و حزنٍ عميقٍ و أسفٍ بالغٍ لما ورد فيها من أخبار عن "مصيدة الحب بهاغوا".

مثل هذه الحوادث المؤسفة تتكرر منذ سنوات في أنحاء البلاد، تحديداً بين أوساط الفتيات المسلمات، اللاتي يقعن ضحية الخداع العاطفي والاستغلال باسم الحب.

و قد أوردت الصحيفة حادثة مؤلمة لفتاة مسلمة من منطقة "بنجال الغربي" لم تذهب حياتها ضحية هذا الفخ فحسب، بل فقدت معها دينها و إيمانها أيضاً.

في ظل الظروف الراهنة، أصبح من الضروري على الآباء والأمهات أن يعززوا علاقاتهم مع بناتهم، و يولوا عواطفهن و احتياجاتهن النفسية اهتماما بالغا، إلى جانب تعزيز الوعي الديني، والحث على الالتزام بالحجاب، والحرص على التعليم النافع، و تحديد أوقات لقراءة سير الصحابة والصحابيات.

كما يجب التنبه إلى خطورة التأثيرات السلبية على مواقع التواصل الاجتماعي.

و قد آن الأوان لإطلاق حملة توعوية في كل حي و قرية و مدينة، لحماية الفتيات المسلمات و بث الوعي الديني وتعزيز القيم والأخلاق في مجتمعاتنا.

اللهم احفظ بنات المسلمين في الهند و في كل بقاع الأرض، من كل سوء و مكروه. آمين يارب!

ظفر هاشم المباركفوري 

1 يوليو 2025م 

05 مُحرَّم الحرام 1447ه‍

Monday, June 30, 2025

من مجريات الحياة اليومية -2

 من مجريات الحياة اليومية -2 

كان الجو اليوم رائعاً للغاية، بسبب الأمطار الغزيرة التي هطلت البارحة. قررتُ أن أزور مع أصدقائي الأعزاء حديقة "أشوكا" الواقعة في ذاكر نغر بمدينة دلهي، انطلقنا سيراً على الأقدام مباشرةً بعد أداء صلاة العصر، فما هو إلا زمنٌ يسيرٌ حتى كنا بين مناظر تبهج لها النفوس وتطمئن لها القلوب.

و الأشجار تبين الجمال و تقف الشامخة و تحتضن الزوار بظلالها و ترحب بالزائرين، و الأطفال يلعبون أنواعاً مختلفة من الألعاب و كذلك الكبار يلعبون كرة القدم و الكريكيت ، و كانت الطيور تمرح بين أفنائها. جلسنا على ضفاف البركة، نتبادل الآراء والأحاديث، مستمتعين بتلك المشاهد الساحرة، ونقلب الطرف بين الأزهار والأشجار و نشاهد الناس يمارسون التمارين الرياضية و بعضهم يتجولون على العشب الأخضر. وكل منهم يشعرون بالبهجة.

بعد ذلك، عدنا لنحتسي كوباً من الشاي مع بعض السمبوسة و توجهنا إلى المسجد لأداء صلاة المغرب، والقلوب مفعمة بالفرح والسرور.

في صباح اليوم نفسه، حوالي الساعة الحادية عشرة، كنت جالساً في الكرسي الوثير، أقرأ الأخبار في صحيفة "الأيام" الفلسطينية و لكن صورة بالصفحة الأولى هزت القلب بشدة، مواطنة كانت تبكي و تحتضن جثمان طفلها الشهيد قبيل تشييعه في خان يونس.

أي ذنب اقترفه هذا الطفل البريء؟

إلى متى سيتواصل العدوان على غزة؟

متى ستتوقف هذه الحرب؟

اللهم احفظ أهل فلسطين و غزة و انصرهم نصراً عزيزاً. آمين يارب العالمين!

ظفر هاشم المباركفوري 

30 يونيو 2025م 

04 مُحرَّم الحرام 1447هـ

Sunday, June 29, 2025

من مجريات الحياة اليومية -1

 من مجريات الحياة اليومية -1

اليوم هو يوم الأحد، و يُعد من الأيام المميزة التي نجتمع فيها بالأصدقاء، لا سِيَّما في دلهي، لأن معظم أصدقائي الأعزاء يعملون في شركات مختلفة أو يدرسون في الجامعات والمعاهد، و غالباً ما يحصلون على إجازاتهم في هذا اليوم. لذا نجد فيه فرصة عظيمة للقاء و تبادل الآراء والأحاديث.

كنت اليوم أنام نوماً عميقاً في غرفتي، فصحوت فجأة قبل أذان العصر، ونظرت من شُرفة المنزل، فإذا بالمطر يهطِل بغزارة.

فقلتُ: "اللهم صيّباً نافعاً." 

و في دلهي، عندما يحلُّ موسم الأمطار و تمطر بغزارة، يصعب على الناس الخروج من منازلهم، إذ تمتلئ الشوارع بالمياه والطين، ممّا يعيق حركة المرور.

جراء غزارة المطر، لم نتمكن من الخروج، فبقينا في المنزل بعد أداء صلاة العصر، و قررنا، أنا و زملائي في السكن، تحضير بكورة هندية (كرات مقلية بالتوابل). و تناولناها بشهية و بسرور، وارتشفنا الشاي الساخن أيضاً، وكان الجو رائعاً ومليئاً بالبهجة.

في الصباح، قرأت الأخبار عن غزة، فغص قلبي وأغرقت عيناي بالدموع. 

ويتواصل العدوان الإسرائيلي على قطاع غزة، ومعه حرب التجويع. حتى حليب الأطفال مفقود، والموت حاضر في غزة، هؤلاء الأطفال يصارعون الموت بأجسادهم الصغيرة بلا ذنب.

اللهم احفظ أهل غزة، وانصرهم على من ظلمهم، وكن لهم عونًا يا أرحم الراحمين.

ظفر هاشم المباركفوري 

29 يونيو 2025م 

03 مُحرَّم الحرام 1447هـ

Thursday, April 3, 2025

اسرائیلی میزائلوں اور بمباریوں سے بچ کر کہاں جائیں



اسرائیلی میزائلوں اور بمباریوں سے بچ کر کہاں جائیں!!

اسرائیلی میزائلوں اور بمباریوں سے بچنے کے لیے غزہ میں کوئی پناہ گاہ موجود نہیں:
تحریر: خلیل الشیخ
ترجمہ: ظفر ہاشم مبارکپوری

موجودہ وحشیانہ جنگ اور تباہی کی ایک درد ناک داستان
فلسطینی خاتون "ام بہا الکیلانی" کی زبانی

پچاس سالہ "ام بہا الکیلانی" نامی ایک خاتون جو بآواز بلند چیخ چیخ کر پکار رہی تھیں، کہ کہاں ہے جائے امن؟ کہاں ہے پناہ گاہ؟ ہم جائے تو کہاں جائیں؟ ہم ان اسرائیلی میزائلوں اور بموں سے بچ نہیں سکتے، وہ ہمارے خیموں میں، ہمارے گھروں میں، ہمارے سونے کی جگہوں میں ہمیں قتل کر دیتے ہیں_
اپنی گود میں اپنے ایک معصوم پوتے کو اٹھائے ہوئے محلہ "السلاطین" سے اپنے گھر کو چھوڑ کر چیختے چلاتے ہوئے روانہ ہو رہی تھیں، اور ان کے ساتھ ان کے خاندان کے بقیہ افراد بچے اور عورتیں بھی تھیں_
کہہ رہی تھیں: "ہمیں نہیں معلوم کہ ہم کہاں جائیں؟ آیا ہمیں کوئی جائے پناہ اور محفوظ جگہ ملے گی یا نہیں؟ یہاں تو صرف بمباری اور تباہی ہو رہی ہے، نہ جانے کتنے لوگ شہید ہوچکے ہیں اور کتنے زخمی ہوئے ہیں_
قابض افواج نے محلہ "السلاطین" کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں تقریباً 55 افراد شہید ہوئے اور درجنوں زخمی ہوئے_
اسرائیل کے دوبارہ وحشیانہ حملوں کے پہلے دن ہمارے اہل خانہ کے کئی افراد شہید ہوگئے، جنوبی علاقے میں نقل مکانی کے ایک سال اور چند مہینے گزرنے کے بعد، ہم نے سوچ لیا تھا کہ ہم اپنے گھروں اور خیموں میں چلے جائیں گے جو ہم نے "بیت لاہیا" میں قائم کیا تھا اور پھر وہیں پر سکونت اختیار کرلیں گے، ہمیں بالکل بھی توقع نہیں تھی کہ جنگ دوبارہ سے شروع ہو جائے گی، اور اس مرتبہ ہمیں نقل مکانی کرنی پڑے گی_
اس بار ہمیں کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ہم کہاں جائیں، کہاں کا رخ کریں، یا کوئی ایسی جگہ جائیں جہاں پر امن ہو، یا جہاں کوئی جائے پناہ ہو_
میں بالکل بھی خوفزدہ نہیں ہوں، لیکن مجھے اپنے بچوں کے بارے میں خوف ہے_
گزشتہ رات بروز منگل، بیت لاہیا میں ہونے والی بمباری میں معجزاتی طور پر اللہ کے فضل و کرم سے میری ایک بیٹی اور اس کے بچے بچ گئے تھے_
تیسرے دن بھی اسرائیلی افواج کی طرف سے مسلسل خون آلود بمباری جاری تھی، جنہوں نے ہمارے گھروں، خیموں اور محلات کو نشانہ بنایا تھا، جس کے نتیجے میں سیکڑوں خاندان نقل مکانی پر مجبور ہوئے، اور انہیں ایک نئی جگہ کی تلاش میں نکلنا پڑا، ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ کوئی بھی جگہ میزائلوں اور راکٹوں سے محفوظ نہیں_
اور قابض اتھارٹیز یہ سوچتی ہے کہ وہ مزاحمتی عناصر اور حماس کی قیادت کو نشانہ بنا رہی ہے، لیکن وہ تو لوگوں کا قتل عام کر رہی ہے، جس میں 80 فیصد بچے اور عورتیں شہید ہیں_

قابض افواج نے گزشتہ چند روز کے دوران ہمارے خیموں اور گھروں کو نشانہ بنا کر تباہ و برباد کر دیا، بلکہ اس بھی زیادہ ہماری گاڑیوں اور سواریوں پر حملہ کیا اور بھیڑ بھاڑ والی جگہوں اور پبلک پلیس کو نشانہ بنایا_

"بیت حانون" کے رہنے والے ایک 30 سالہ وسیم نامی شخص نے بتایا کہ ہم خوف کے بیچ رہ کر تازہ ترین معلومات اور خبروں کا مشاہدہ کر رہے تھے اور نقل مکانی کے حالات کو دیکھ رہے تھے، کہ اچانک ایک میزائل یہاں آکر گرتی ہے اور سب کچھ تباہ کر جاتی ہے_
لوگ مشرق اور شمال سے نقل مکانی کرنے پرمجبور ہیں، اور میزائلیں ان کا پیچھا کر رہی ہیں، قابض افواج "حدودیہ" نامی علاقے کو خالی کروا رہی ہے، اور قصبے کے بیچ لوگوں کا پیچھا کرکے ان کا قتل عام کرتی ہے_

 فلسطین کے حالات دن بدن دگر گوں ہوتے جارہے ہیں بد سے بدتر ہورہے ہیں، کوئی پرسانِ حال نہیں، کوئی غم گسار نہیں، ہر ایک نے بے یارو مددگار چھوڑ دیا، بس اللہ رحم فرمائے_
ہم اہلِ غزہ کے لیے جو کچھ بھی کر سکتے ہیں، ضرور کریں، ان کا مالی تعاون کریں، کم از کم رمضان کے بابرکت مہینے میں گڑگڑا کر اہل فلسطین و غزہ کے لیے دعائیں کریں_
یا رب اہل فلسطین کی مدد فرما، ان کے احوال پر رحم فرما، مسجد اقصیٰ کی حفاظت فرما، فلسطین کو آزادی عطا فرما، اللہ ان پر اپنی رحمت کا نزول فرما، آمین!

3/اپریل 2025 بروز جمعرات 

Wednesday, February 5, 2025

غزہ، تمہاری جد و جہد کے رہنما اصول!

 

غزہ، تمہاری جد و جہد کے رہنما اصول!!!

چار سو ستر دن سے زیادہ "غزہ" ہر اس شخص کے لیے "علم کا میدان اور آماجگاہ بنا ہوا تھا، جو کچھ حاصل کرنے کا طلبگار اور خواہاں تھا_

غزہ نے ہمیں بے شمار اسباق سکھائے، لا محدود درس دیے_

غزہ نے ہمیں سب سے پہلے یہ سبق سکھایا کہ ہر گزرتے ہوئے دن کے آخری لائن پر ایک لکیر کھینچ دیں، یعنی حالات چاہے جیسے بھی ہوں، انہیں ماضی کے بوجھ تلے دبنے نہیں دینا چاہیے، بلکہ ہر دن کو نئی امید اور عزم کے ساتھ گزارنا چاہیے_

غزہ نے ہمیں استقامت کا حقیقی مفہوم سمجھایا اور دکھایا کہ مشکلات کا مقابلہ کیسے کیا جاتا ہے_ غزہ کی جدوجہد نے ہمیں انسانیت کی اصل حقیقت کا شعور دیا_

غزہ نے ہمیں قتل و غارتگری اور نسل کشی کا مقابلہ کرنے کے لیے قربانی پیش کرنے اور بازنطینی لڑائی کو روکنے کا فن سکھایا_

روز اول سے آخری روز تک، غزہ نے پوری جان لگا کر، پوری محنت و مشقت کے ساتھ، ہمیں اپنا درس دیا، باقی رہنے والی محبت کا فن سکھایا، جینے کا سلیقہ سکھایا، دن رات تمام تر سرگوشیوں اور وسوسوں کے باوجود کہ کوئی بھی چیز بقا کی مستحق نہیں، کچھ بھی زندہ رہنے کے قابل نہیں، اور یہ کہ بقا کا مطلب زندگی سے خوف کرنا ہے_

غزہ نے ہمیں اصطلاحات کو دوبارہ تخلیق کرنا سکھایا، صمود اور ثابت قدمی کے معنیٰ سکھائے، یہی نہیں بلکہ حقیقت میں اسے عملی طور پر اپنانا سکھایا، اس نے اس لفظ کے معنی کو نعروں سے دور کیا، اور اسے تقریروں اور بے کار ضرورتوں میں استعمال ہونے سے علیحدہ رکھا، تاکہ ان لوگوں کے لیے بڑی امیدیں بن کر سامنے آئیں جو موت، نقل مکانی، بھوک، قہر اور ظلم کی آگ میں جھلس رہے ہیں_

غزہ نے ہمیں سکھایا کہ سونے سے قبل اور اسکے بعد، ہر حالت میں اللہ کی تعریف اور اس کی بڑائی بیان کریں اور ہر مصیبت اور تکلیف میں اللہ تعالیٰ شکر ادا کریں، اور موت پر بھی اللہ کی تعریف اور شکر ادا کریں، اور خون سے لت پت ہر اس حصے پر بھی اللہ کی کبریائی بیان کریں اور شکر بجا لائیں، غزہ نے ہمیں سکھایا کہ ہم خواب ضرور دیکھیں، اور خواب کی اصلیت اور مقصدیت کو سمجھیں، غزہ نے ہمیں سکھایا کہ آزمائشیں بہترین نتائج فراہم کر سکتی ہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے ہمیشہ بہتر چیزوں کا ہی انتخاب کرتا ہے_

غزہ نے ہمیں دکھایا کہ مشکلات کے باوجود انسان میں قوتِ ارادی کا کتنا بڑا اثر ہوتا ہے، غزہ نے ہمیں یہ سبق دیا کہ زندگی کی اصل قیمت مشکلات میں چھپی ہوتی ہے،

غزہ کے حالات نے ہمیں یہ سکھایا کہ صرف عزم و ہمت سے ہی منزل تک پہنچا جا سکتا ہے_

غزہ نے ہمیں عمیق تجربات کا مفہوم سکھایا جو ہمارے جسموں پر اپنے اثرات و نشانات چھوڑ جاتے ہیں، غزہ نے ہمیں امید کا خواب دیکھنا اور اندھیروں کو جھیلنا سکھایا، دکھ درد کو سہنا سکھایا، تھوڑی سی امید کے لئے بھی مُسکرانا سکھایا، غزہ نے ہمیں چھوٹی چھوٹی چیزوں کے ذریعہ بھی معجزاتی تخلیق کرکے مسکرانا اور خوش ہونا سکھایا، اب چاہے یہ خوشی وقتی ہو عارضی ہو فانی ہو یا معمولی ہو، یہاں تک کہ بے وقعت ہو_

غزہ نے دنیا کو دکھایا کہ یکجہتی اور ہم آہنگی کیسے کی جاتی ہے، اس نے ارادہ، ہمت، بہادری، عزم و حوصلہ سکھایا، غزہ نے دنیا کو اصل کہانی کی حقیقت سے آگاہ کیا، اس نے اخلاقیات، اقدار اور بلند اصولوں کی تعلیم دی، اس نے بتایا کہ قوانین کا درجہ اور مقام، عدل و انصاف اور تبدیلی پیدا کرنے میں ہے نا کہ بس انہیں یوں ہی چھوڑ دینے اور محض تحریری طور پر محفوظ کرنے میں ہے_

غزہ نے اپنی چھوٹی سی سرزمین اور وسیع و عریض آرزوؤں کے ذریعے سکھایا کہ ناکامی اور شکست ہمارے لئے قابل قبول نہیں، اور جو کچھ ہم توقع کرتے ہیں اسی کے مطابق ہماری امیدیں اور آرزوئیں بنتی ہیں، 

غزہ کی جدوجہد نے ہمیں دکھایا کہ جرات اور عزم کی طاقت سے دنیا کو بدلنا ممکن ہے_

غزہ نے ہمیں یہ سکھایا کہ آزادی کا خواب ہمیشہ زندہ رہتا ہے، چاہے حالات جیسے بھی ہوں، عزت نفس اور آزادی کی جنگ ہمیشہ جیتی جاتی ہے_

اے غزہ، ہمیں تیرے اسباق اور تجربات کی مزید ضرورت ہے، اے غزہ، اپنے اصولی منہج کے مطابق وہ باتیں کہو جو کہنی چاہئیں، اے غزہ، تمہارے پاس ابھی بھی بہت کچھ ہے۔۔۔

اے غزہ، تو ہمیشہ شاد رہے آباد رہے،

تیری زمیں ہمیشہ سرفراز رہے،

تو ہمت و قوت کا سر چشمہ رہے،

تو عزم و حوصلے کی امید رہے،

تیری خاموش آوازیں دلوں کی گونجے بنے،

تیرا چراغ روشنی کے سفر کی داستان بنے،

تیرا عزم ظلم کے خلاف اٹھنے کا حوصلے بنے،

تیرا درد ہمارے دلوں کی دھڑکن بنے، 

تیری پکار آزادی کی جنگ بنے،

تیری تقدیر ایک نئی صبح کا آغاز بنے_


Wednesday, November 6, 2024

ایک خیمہ کے اندر اپنے نقّاش خانہ میں نسل کشی اور ثقل سماعت سے مقابلہ کرتے ہوئے بلال ابو النحل

 


ایک خیمہ کے اندر اپنے نقّاش خانہ میں نسل کشی اور ثقل سماعت سے مقابلہ کرتے ہوئے بلال ابو النحل


غزہ کی پٹی میں واقع "دیر البلح" نامی شہر میں "السلام" روڈ کے کنارے ایک خیمہ لگا ہے، جو دنیا کے سب سے زیادہ ہجوم اور بھیڑ بھاڑ والے علاقوں میں سے ایک بننے والے اس جغرافیائی مقام میں ڈرائنگ روم اور نقاش خانہ میں تبدیل ہو چکا ہے،، جوں ہی کوئی انسان اس میں داخل ہوتا ہے تو وہ اپنے آپ کو ایک ایسے نوجوان فنکار، آرٹسٹ بلال ابو النحل کی خوبصورت اور شاندار تخلیقات کے درمیاں پاتا ہے، جنہوں نے اپنے عمدہ دور میں اپنے قلم اور نب کے ذریعے نسل کشی، تباہی و بربادی اور بہرے پن و گرانی گوش کا مقابلہ کرتے ہوئے اس خیمے کو نگار و نقاش خانہ میں تبدیل کر دیا ہے_

26 سالہ ابو النحل جن کو اپنے پیشہ وارانہ فن کو جاری رکھنے کے لیے نہ تو جنگ کے حالات اور حوادث زمانہ روک پائے، نا ہی بندوق کی گولیوں سے وہ ڈرے اور نا ہی میزائلوں کی بوچھاڑ نے ان کا بال بیکا کیا، وہ غزہ و اہل غزہ اور اپنے لوگوں کی پینٹنگز اور نقاشی کرتے ہیں، باحیات اور شہداء کی ڈرائنگ اور نقش کشی کرتے ہیں، ایک سال سے زائد عرصے سے اپنے روز مرہ معمولات اور مشاہدات کی نگرانی کر رہے ہیں، اور پینٹنگز اور نقش و نگار سے مزین نائلون سے ڈھکے ہوئے خیموں کی دیواروں کو اپنی تخلیقات کی نمائش کا ایک ذریعہ بنا لیا ہے_

بلال بیچارے ثقل سماعت سے جھونجھ رہے ہیں، بہرے ہیں، وہ لوگوں کے غموں اور دکھ درد کو نہیں سن سکتے، لیکن وہ آپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں، اسے محسوس کر سکتے ہیں، اور سمجھ سکتے ہیں کہ کس طرح لوگ اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں_ وہ ایسے شخص ہیں جو نقل مکانی کے متعدد ادوار سے گزر چکے ہیں، جنہوں نے اپنے بہت سارے عزیزوں، رشتہ داروں، اور دوستوں کو کھو دیا ہے، چنانچہ انہوں نے غزہ کے دکھ درد کو سرمئی رنگوں میں نقش کشی کی ہے، جبکہ وہ جنگ و جدل اور جارحیت سے پہلے لوگوں کے قصے کہانیوں کو خوشیوں میں رنگا کرتے تھے اور نقش کشی کرتے تھے_

ابو النحل ڈرائنگ اور پینٹنگز کے بیحد شوقین ہیں، چنانچہ انہوں نے سب سے پہلے کاغذ پر پینٹنگ اور تصویر کشی شروع کی، پھر دھیرے دھیرے وہ تختوں اور دیواروں پر پینٹنگز اور نقش نگار کرنے لگے، اور علاقے میں گرافٹی فن کے تخلیق کاروں میں ان کا نام شمار ہونے لگا، اور بہترین فنکار، مصور اور آرٹسٹ بن کر سامنے آئے_ اپنے اردگرد لوگوں کو اشاروں کی زبان کا استعمال کرتے ہوئے بتایا کہ دیواری پینٹنگز ہی دنیا سے بات کرنے اور اس سے مخاطب ہونے کا سب سے آسان طریقہ ہے، جبکہ وہ پورٹریٹ جن میں انہوں نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا اس سے لوگوں کے درمیان قربت اور بڑھ گئی_

جنگ سے پہلے ایک پینٹنگ کو مکمل کرنے میں تقریباً دس دن لگ جاتے تھے، وہ پارک اور باغیچوں میں لہو و لعب میں مشغول اور تفریح کرتے ہوئے بچوں کی تصاویر بناتے تھے، اسی طرح غزہ کے ساحلی سمندر پر انسانوں اور ان کی زندگیوں سے بھرپور مناظر کی نقش کشی کرتے تھے، لیکن 7 اکتوبر 2023 کے بعد، سیاہ اور سفید رنگ سے پینٹنگز کرنے لگے، جو لوگوں کے دکھ درد اور ان پر ظلم و جبر کی عکاسی کرتی ہے_

تارکینِ وطن نوجوان فنکار آرٹسٹ بلال ابو النحل کے خیمے میں نئی فنکارانہ تخلیقات اور پینٹنگز کا دیدار کرنے جاتے ہیں، ان کی زیارت کرتے ہیں اور میزائلوں کی بارش کے چلتے پوری مہارت کے ساتھ بنائی گئی پینٹنگز پر تعجب اور حیرت کا اظہار کرتے ہیں_ ابو النحل کی انگلیوں کے پوروں سے نقش کی گئی خوبصورت پینٹنگز جن کا لوگ مشاہدہ کر رہے ہیں اس نوجوان کی ہے جو بولنے سے قاصر ہے کیونکہ کہ وہ گونگے ہیں، لیکن وہ الفاظ کے ذریعے نقش کشی کرنے پر مہارت رکھتے ہیں، وہ تمام زائرین کو مدہوش کرتے ہیں، لوگ آتے ہیں اور تصاویر اور پینٹنگز کا فوٹو لیتے ہیں اسی طرح لوگ پینٹنگز کے سامنے اپنی سیلفی لیتے ہیں، لوگ اس نوجوان کی مسلسل کوششوں اور محنتوں کی قدر کرتے ہیں اور ان کے اس شغف اور دلچسپی پر حوصلہ افزائی کرتے ہیں_

ریاض الجایح جنہوں نے آرٹسٹ ابو النحل کو اپنے گھر میں پناہ دی ہے، ان کے ساتھ رہتے ہیں، عام طور پر ریاض خیمہ کے اندر ابو النحل کے پاس ہی بیٹھتے ہیں اور زائرین کا بھرپور استقبال کرتے ہیں اور ابو النحل کی طرف سے نیابت کرتے ہیں_ الجزیرہ نت کے مطابق، ان کا کہنا ہے کہ وہ بلال ابو النحل کے پاس صبح سات بجے سے رات دس بجے تک بیٹھتے ہیں، اور ابو النحل کا تعاون کرتے ہیں جب وہ اپنے قلم اور نب سے تخت اور بورڈ پر پینٹنگز بنا رہے ہوتے ہیں_ مزید کہا کہ میں نے ان کے لئے نقش خانہ بنایا ہے تاکہ غزہ میں جاری خطرناک تباہی اور جنگ کے باوجود آمدنی کا ایک ذریعہ بن سکے_

بلال کے ایک اور دوست مجدی موسیٰ ہیں جو روزانہ ان کے پاس آتے ہیں اور بلال کا سپورٹ اور تعاون کرتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، اور ثابت قدمی کو مزید مضبوط کرتے ہیں، ایک ویڈیو میں کہتے ہیں کہ جب وہ پینٹنگز کا بورڈ اٹھا رہے تھے: غزہ میں ہر چیز معدوم ہو چکی ہے، ہماری صلاحیتیں، ہماری امنگیں، ہمارے عزائم، ہماری خواہشات، ہمارے ادارے جو اس فن سے وابستہ تھے غزہ کی پٹی میں وحشیانہ درندگی اور جنگ کے نتیجے میں سب کچھ ختم ہو گیا ہے_

غزہ سے تعلق رکھنے والے ایک اور نوجوان یامین عویضہ ہیں جو یومیہ بلال کے خیمے کا دورہ کرتے ہیں اور جنگ کی کوخ سے پیدا ہونے والے ان کی صلاحیتوں اور ان کے فنی کاموں کی جم کر تعریف کرتے ہیں، انہوں نے بلال کے لیے خصوصی تعاون اور امداد کی اپیل کی ہے، تاکہ بلال کی روح میں پینٹنگز کے ذریعے ان کے اور اہل غزہ کے احساسات و جذبات کا اظہار کرنے والی تخلیقات پھوٹ پڑے_

بعد ازاں، خان یونس کے مدرسہ الاعدادیہ کے تربیتِ فنون کے استاد محترم جناب احمد الترتوری نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ بلال کا یہ خیمہ دراصل ارادہ و ہمت اور درپیش چیلنجز کی نمائندگی کررہا ہے جو فلسطینی عوام کو ممتاز بنا رہا ہے اور انہیں ایک الگ پہچان دے رہا ہے_ بلال جو اپنے قلم اور نب کے ذریعے پینٹنگز کرکے اپنے خصوصی طریقے سے مزاحمت کر رہے ہیں_ انہوں نے مزید کہا: تارکین وطن سے بھرپور علاقہ میں اس ڈرائنگ روم اور نقاش خانہ کا وجود ثابت قدمی اور چیلنج کا پیغام ہے_

الترتوری نے فلسطین اور عالم عرب کے ثقافتی اداروں اور تنظیموں سے درخواست کی ہے کہ ابو النحل کی تخلیقات پر توجہ دیں، اور انہیں اس مشکل حالات میں جس سے محصور غزہ کی پٹی میں ثقافتی ادارے گزر رہے ہیں ہر طریقے کی مادی و اخلاقی مدد فراہم کریں، جنہیں قابض افواج فلسطینیوں کے خلاف اپنی "وحشیانہ جنگ" کے حصے کے طور پر براہ راست نشانہ بناتی ہیں_

ابو النحل زخمی محصور ملک کی سرحدوں سے باہر جانے کا خواب دیکھتے ہیں، پڑوسیوں کے مطابق، ان کی یہ تمنا ہے کہ وہ بین الاقوامی ڈرائنگ نمائشوں میں شرکت کریں، جہاں وہ اپنی پینٹنگز اور ڈرائنگ کی نمائش کریں اور غزہ کی آواز بنیں ، 17 سال سے زائد عرصے سے غزہ کی پٹی پر سخت محاصرے کی وجہ سے اپنی فصیل سے باہر پرواز کرنے سے محروم ہیں، غزہ کے آسمان کو بھرنے والے راکٹوں کی مسلسل بارش، دھماکوں اور ان کی ہلاکتوں و تباہیوں سے دور رہیں_

عربی سے ترجمہ : ظفر ہاشم مبارکپوری




Saturday, October 26, 2024

هديةُ كتاب

 


هديةُ كتاب

✍️ ظفر هاشم المباركفوري/ نيو دلهي - الهند 

تعد أفضل هدية في العالم يقدمها إنسان لآخر هي هدية كتاب، و هذا النوع من الهدايا سامي و هادف، حيث تكون الهدية لها مكانة خاصة و قيمة عندما يهديها مؤلف الكتاب نفسه.

في أحد الأيام، أهداني أديب بارع و كاتب بارز من السعودية هديةً قيمة جميلة، كنت أنتظرها بشغف و أترقب وصولها منذ تم إرسالها إلى الهند. و هذه الهدية كانت ذات أهمية بالغة عندي لأنها جاءت من شخص عظيم و من مكان بعيد جداً.

  في يوم ما كنتُ أتناول طعام الغداء في غرفتي، رنّ هاتفي فجأة ، قلت : مرحباً من حضرتك ، قال : "أنا ساعي البريد". هل أنت ظفر...؟

قلت : أجل…

قال : لك طرد في البريد يجب أن تأتي لتستلمها…

أجبته : أنا قادم.

 بعد أن حصلت على هذا الطرد، عدت إلى المنزل و فتحته و أنا في غاية السرور، أطير فرحاً، و أشعر بالنشاط.

إنه جميييل كثيييير، ماشاء الله تبارك الرحمن..

كانت هذه الهدية هي كتاب اسمه "خيانة ورق" أهداني إياها الكاتب الأديب السعودي عبد الباري أحمد الدخيل حفظه الله و رعاه. 

تعرفت على الكاتب الأديب من خلال مجموعة تفاعلية على تطبيق التليجرام ، وقتها أرسل الكاتب صورة الكتاب ليشاهده أعضاء المجموعة، عندما رأيته في تلك اللحظة سألت الكاتب -حفظه الله و رعاه- عن هذا الكتاب و عن كيفية الحصول عليه في الهند و هل هو موجود هنا، فأجابني فجأة : إذا ممكن كتابة العنوان البريدي لأرسل لك نسخة -إن شاء الله- و سيصلك قريباً بإذن الله تعالى.

الحمد لله، تم بفضل الله تعالى وصول الكتاب، و هو بحوزتي الآن.

نبذة عن حياة الكاتب 

عبد الباري أحمد الدخيل من مواليد جزيرة تاروت، تلقى التعليم فيها.

-عمل في وزارة البترول و الثروة المعدنية في الرياض.

-يعمل حالياً في إدارة العلاقات العامة و الإعلام في بلدية محافظة القطيف.

-أنهى عدة دورات تدريبية في العمل الإعلامي و الصحفي.

-أدار عدد من الندوات و المحاضرات و الحوارات التلفزيونية.

-قدم ورش عمل في المجال الإعلامي و الصحفي.

-شارك في التمثيل في عدة أفلام أنتجتها مؤسسة قيثارة للإنتاج الفني منها :

"المهمة الصعبة"،"في بيتنا موهوب"، "الصفيح" ، ثلاثون يوماً" و غيرها.

-نشرت له قصائد شعرية و قصص قصيرة و مقالات في بعض الصحف و المجلات السعودية و عدد من المواقع الالكترونية.

-صدر له عدد من الكتب من بينها:

"من مناقب اهل البيت"، 

"السلفيون و الشيعة تجربة حوار"، 

"الوطن للجميع"، 

"مشهد للتواصل و الانفتاح الوطني"،

"أوراق ليست للبيع"،

(مصدر: منتدى الثلاثاء الثقافي)

تعريف بالكتاب

اسم الكتاب "خيانة ورق“ و هو مجموعة قصصية جديدة للكاتب الأديب عبد الباري أحمد الدخيل. 

كل قصة منها تتناول موضوعاً مختلفاً. و تعرض تجربة إنسانية فريدة.

صدرت المجموعة القصصية عن دار الانتشار العربي في لبنان.

تحتوي هذه المجموعة القصصية على 25 قصة قصيرة.

يفتتح الكتاب بمقدمة يطرح فيها الكاتب مجموعة من الأسئلة

مثل كيف صبرنا على الغياب ؟ 

كيف سامحنا ؟

كيف خفنا و ندمنا ؟

كيف خانتنا براءة الأطفال و ظننا أن وراء الحب وردة ؟

كيف متنا ألف مرة ؟

كيف أخفينا الأشواق في أكياس ورقية ؟

و كيف تعودنا على نسيان المواجع ؟

 و غير ذلك....

ثم يبدأ بسلسلة من القصص القصيرة الرائعة الشيقة و في القصة الأولى يتناول الكاتب موضوع الأمومة تحت عنوان "أيتها السماء إنها أمي".

يذكر فيها عن أحوال منزله، هناك توجد مكتبة صغيرة في المنزل. و أفراد أسرته مثقفون و مهذبون، و أمه الكريمة تنحدر من عائلة عريقة في العلم و الأدب، فوالده الشفيق وجيه البلد. وعمها شاعر. يحترم بعضهم البعض و يلقون بابتسامة، و لا يعلو صوتهم على صوت الأب. ولا مجال لمخالفة أمر الأم.

و بعده، تبدأ القصة الثانية بعنوان "بابا العظيم". فيها يبين المؤلف أن أبيها صارع قرشاً، واستطاع النجاة من بين أسنانه.

ثم القصة الثالثة "مذكرات رغيف" يذكر فيها ذكريات الماضي.

والرابعة "شظايا تقاوم الغياب" والخامسة "سماء لا تسكنها الغيوم" والسادسة "أنتِ وحدكِ هنا".

هكذا يذكر الكتاب جميع القصص من البداية إلى النهاية بكل اهتمام و بشكل جدي.

و تتميز قصص المجموعة بأسلوبها المشوق الذي يأسر القارئ حتى النهاية.

هذه المجموعة القصصية من أمتع ما قرأته للكاتب عبد الباري، أنا أعشق كل ما كتبه هذا الكتاب البديع.

استخدم عبد الباري أحمد الدخيل أسلوبًا أدبياً سرديًا يمزج بين البساطة و التعمق، مما يجعل القارئ يندمج في القصص.

تمتاز لغة أحمد الدخيل في هذا الكتاب بالبساطة و البلاغة في آن واحد.

أثرت هذه المجموعة القصصية "خيانة ورق" فيّ بشكل عميق. استمتعتُ بأسلوب الكاتب السلس و مشاعره القوية. كل قصة تحمل أهمية بالغة، أنصح الجميع بقراءته فكل قصة ذات أهمية بالغة، فهو يستحق أن يكون في مكتبات القراءة و المطالعة لمحبي الأدب القصصي.

26 أكتوبر 2024م

من مجريات الحياة اليومية -3

  من مجريات الحياة اليومية -3 في صباح هذا اليوم، و بينما كنت أقرأ صحيفة "ممبئى اردو نيوز"، شعرت بألمٍ شديدٍ و حزنٍ عميقٍ و أسفٍ با...