Posts

انس الشریف ۔۔۔۔۔۔ ایک نڈر صحافی

Image
  انس الشریف۔۔۔ ایک نڈر صحافی   ایک عظیم مجاہد، دشمنوں کی صفوں کو للکارنے والا، ہمت و استقلال کا پہاڑ، شہر عزیمت کا سپاہی، بے باک و جانباز صحافی، بموں اور راکٹوں سے ٹکرانے والا، بندوق کی گولیوں سے تیز و طرار آواز کے ساتھ، غزہ کے چپے چپے کی رپورٹنگ کرنے والا، حقائق کو سامنے لانے والا، اسرائیل کی ناک میں دم کرنے والا، سچ کی تیز آواز سے اسرائیلی افواج کی اینٹ سے اینٹ بجانے والا، بھوکے پیاسے رہ کر اپنے صحافتی مشن کو آگے بڑھانے والا، الجزیرہ کا ہیرو نامہ نگار، لاکھوں لوگوں کی دھڑکن، بار بار نقصان اور غموں کو جھیلنے والا، تمام تر پریشانیوں اور مصیبتوں کے باوجود، سچ کہنے سے پیچھے نہ ہٹنے والا، یتیموں، معصوموں اور مظلوموں کا لاڈلا، فلسطین کی آواز، غزہ کا سہارا، پیاری بیٹی "شام" کا ایک بہادر باپ، عزیز بیٹے "صلاح" کے ایک دلیر والد، پیاری والدہ کا ایک ہونہار بیٹا، وفادار بیوی "ام صلاح بیان" کا ایک عظیم شوہر، بہادری، دلیری، جرات مندی، بےباکی،  شجاعت، استقامت و ثبات کی ایک زبردست مثال، دنیا کے سامنے گونجنے والی آواز،  مگر آہ وہ آواز آج خاموش ہو گئی، جو دنیا کو چیخ چیخ ...

من مجريات الحياة اليومية -11

  من مجريات الحياة اليومية -11 مدينة العلم والثقافة......أم مدينة الشتائم؟ تعد مدينة دلهي مركزاً للعلم والمعرفة والثقافة وتحتضن العديد من الجامعات والمعاهد والمدارس المرموقة. ولا شك فيه أن هذه المؤسسات التعليمية قد حظيت بالإشادة والتقدير لما شهدته من نمو وتقدم وتطور خلال السنوات الماضية. ولكن أدهشتني الدراسة (survey) التي قدمها البروفيسور "سنيل جاغلان" قبل أسبوع أو أكثر وشعرت بالحزن الشديد، والتي تشير إلى أن دلهي تصدرت قائمة المدن التي يستخدم فيها السكان لغة مسيئة (Abusive language) بشكل يومي. بنسبة تصل إلى 80%. وتليها ولاية بنجاب، وأترابراديش، وبيهار، وراجستان، وهاريانا وغيرها. إنها لحظة تستدعي التأمل والتفكير. كان من المفترض أن تحتل مدينتنا مكانة رفيعة في مجالات العلم والثقافة والأخلاق، لكن الواقع يبدو مغايراً تماماً. لا يقتصر استخدام الألفاظ النابية على المراهقين فحسب، بل يشمل الكبار أيضاً. أود أن أوجه رسالة إلى كل قارئ! هل هذا ما نعلمه أبناءنا؟ هل نربي أطفالنا على هذا النحو؟ هل غابت عنا أهمية التربية السليمة؟ هل أصبحنا نغفل عن دورنا التربوي؟ علينا أن نحفظ ألسنتنا و أن نرت...

غزہ میں پانی بھی جان لیوا

Image
  غزہ میں پانی بھی جان لیوا انگریزی سے ترجمہ پانی کی فراہمی، پانی کی جستجو، پانی کا استعمال، پانی میں تیراکی۔۔۔۔یہ سب اہل غزہ کے لیے ہلاکت کا سبب بن سکتے ہیں_ غزہ میں، زندگی کے ہر موڑ پر ہمیں موت ہی موت دکھائی دے رہی ہے، موت ہماری نہ جدا ہونے والی ساتھی بن گئی،  گلیوں اور سڑکوں پر جاتے ہوئے موت، آسمان کی طرف نگاہ اٹھاتے ہوئے موت، یا پھر اپنے ہی گھروں میں موت،  یہ کوئی صدمہ نہیں، بلکہ ایک خطرناک یومیہ حقیقت ہے جو ہمیں در پیش ہے اور مجبوراً ان کے ساتھ سمجھوتا کرنا پڑ رہا ہے_ سنا تھا جینے کے مختلف طریقے ہوتے ہیں، یہاں غزہ میں موت کے مختلف طریقے و راستے ہیں، لیکن یہ راستے اور طریقے کوئی خود سے نہیں چن سکتا_ بمباری سے آپ کی موت ہو سکتی ہے، یا پھر کسی بندوق کی گولی سے، یا بھوک مٹانے کے لیے خوراک جمع کرنے کی کوشش سے، یا خود شدتِ بھوک بھی ہلاکت کا سبب بن سکتی ہے_ وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ غذائی قلت کے باعث 116 لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں جن میں بیشتر بچے شامل ہیں_ غزہ میں سب سے آسان اور بنیادی چیز بھی جان لیوا ہو سکتی ہے، چاہے وہ پانی ہی کیوں نہ ہو، اس کا ہر پہلو، ہر لمحہ خطرناک ہو سکت...

غزہ میں بھوک کا قہر

Image
  غزہ میں بھوک کا قہر: بچے رونے سے قاصر، والدین کی بانہوں میں دم توڑ رہے ہیں غزہ سے آنے والے مناظر اور دل دہلانے دینے والے واقعات نے پورے عالم میں خوف و ہراس اور اضطراب کا ماحول پیدا کر دیا ہے، ایک ایسا منظر جو اکیسویں صدی کی انسانیت پر ایک سوالیہ نشان ہے، غزہ کے اسپتالوں کے وارڈز، موت کا میدان بن گئے، جہاں، لوگ ایک کے بعد ایک، جان کی بازی لگا رہے ہیں اور ہر لمحہ، بھوک ایک نئی جان لے رہی ہے، جس کو اقوامِ متحدہ کی رپورٹس نے عہد حاضر کی بدترین انسانی تباہی سے تعبیر کیا ہے، جبکہ طبی رپورٹس نے ان اموات کی لرزہ خیز تفصیلات بیان کی ہیں کہ جنہیں محض دو ڈالر کی دوا سے روکا جا سکتا تھا_ شمالی غزہ کے " اصدقاء المریض " نامی اسپتال کے بچہ وارڈز میں اس وقت ایک قیامت خیز سناٹا چھا گیا، جب ایک ہفتے کے دوران پانچ ننھے ننھے معصوم بچوں کے دل دھڑکنے بند ہو گئے، کسی بمباری کی وجہ سے نہیں، نا ہی کسی بیماری کی وجہ سے، بلکہ شدتِ بھوک اور اس کے قہر نے انہیں موت کی نیند سلا دیا_ غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق، بھوک اور غذائی قلت کے باعث ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر 113 ہو گئی ہے، جن میں 81 بچے شامل ہی...

من مجريات الحياة اليومية -10

  من مجريات الحياة اليومية -10 كنتُ جالساً على كرسيّي المفضّل أفكّر فيما أكتب اليوم. فتحتُ هاتفي الذكي، و بدأت أتصفّح صحيفة "الأيام" الفلسطينية. ثم توقفتُ لبرهةٍ، و طرحتُ على نفسي سؤالاً: عمّ أكتب؟ هل أكتبُ عن الغارات العنيفة على خان يونس؟ أم عن تجديد أوامر الإخلاء في شمال غزة؟ هل أكتب عن الأطفال الذين يُستشهدون برصاص الاحتلال؟ أم عن أنقاض المنازل قصفها الاحتلال في غزة؟ هل أكتب عن عمليات الاقتحام اليومية؟ أم عن مواجهة الجوع والعطش؟ هل أكتب عن تعرض للقصف الذي لا يتوقف؟  أم عن إطلاق النار على مدار الساعة؟  هل أكتب عن سقوط القنابل على النازحين؟ أم عن سقوط الشهداء والجرحى يومياً من النساء والأطفال؟ هل أكتب عن عيش حياة قاسية و صعبة؟ أم عن عيش مرارة النزوح والتنقل من مكان إلى آخر؟ هل أكتب عن شعورهم بالحر الشديد؟ أم عن تحول بشرتهم إلى سمراء؟ هل أكتب عن المئات من مختلف الأعمار الذين أصابهم الجوع الحاد وسوء التغذية ؟ أم عن الطوابير الطويلة للمجوعين يلاحقون رغيف الخبز وسط الرصاص؟ هل أكتب عن تدمير خط مياه في قرية أم صفا؟ أم عن شيء آخر؟ ما الذي أكتبه، و ما الذي لا أكتبه؟ فبينما الحرب...

من مجريات الحياة اليومية -9

  من مجريات الحياة اليومية -9 بدأتُ اليوم قراءة كتابٍ جديدٍ باللغة الأوردية بعنوان (دنیا خوب دیکھا)، و يعني: " طوّفتُ في مشارق الأرض و مغاربها "، ألّفه فضيلة الشيخ البروفيسور " محسن عثماني الندوي " حفظه الله و رعاه. يُعد البروفيسور محسن عثماني الندوي أحد العلماء البارزين، والكتّاب المتميزين في الهند. ألف أكثر من خمسين كتاباً، و كتب أيضاً العديد من المقالات في موضوعات متنوعة تشمل: العلوم الإسلامية، والتاريخ والأدب والأوضاع الراهنة وغيرها، وقد حازت مؤلفاته و تصنيفاته قبولاً واسعاً بين الأوساط العلمية والأدبية. يحتوي هذا الكتاب على سرد شيق لرحلاته إلى عدة بلدان، منها: أمريكا ولندن وتركيا ومصر والشام والأردن وإيران و المغرب. ولم أكمل بعدُ قراءة هذا الكتاب الرائع، بل قرأت اليوم الجزء الابتدائي المتعلق برحلته إلى أمريكا، والذي يتكون من ٧٢ صفحة، إن شاء الله سأكمل قراءته قريباً. الكتاب غني بالمعلومات القيمة والملاحظات الدقيقة، ويتميز بأسلوبه الأدبي الشيق، مما يجعله من أروع ما كُتب في أدب الرحلات باللغة الأوردية. لقد استمتعتُ بكل لحظة من رحلته. ولذلك أنصح الجميع بقراءته وال...

ڈاکٹر اورنگزیب اعظمی صاحب کا ایک قابل قدر عربی ترجمہ

Image
  ڈاکٹر اورنگزیب اعظمی صاحب کا ایک قابل قدر عربی ترجمہ ہندوستان کے مشہور و معروف محقق، مصنف و مؤرخ قاضی اطہر مبارکپوریؒ علمی دنیا میں محتاج تعارف نہیں ہیں، اردو اور عربی زبان میں ان کی بےشمار کتابیں موجود ہیں_ قاضی اطہر مبارکپوریؒ کی ایک اہم اردو کتاب "خلافت عباسیہ اور ہندوستان" کا نہایت خوبصورت اور شاندار عربی ترجمہ استادِ محترم  ڈاکٹر اورنگزیب اعظمی صاحب کے ہاتھوں بڑی محنتوں اور مشقتوں کے بعد پایۂ تکمیل کو پہنچا ہے، یہ ترجمہ  مئی 2025 کو مرکزی پبلیکیشنز نیو دہلی  سے شائع ہو کر اہل علم کے درمیان آچکا ہے، اور امید ہے کہ عرب دنیا میں بھی اس کا خیر مقدم کیا جائے، یہ ترجمہ کافی عمدہ اور لاجواب ہے_ استاد محترم ڈاکٹر اورنگزیب اعظمی صاحب جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے شعبۂ عربی کے ممتاز استاذ اور بنگال سے شائع ہونے والے علمی مجلہ " مجلة الهند " کے مدیرِ تحریر ہیں_ آپ متعدد علمی و ادبی کتابوں کے مصنف اور کئی اہم کتابوں کے مترجم بھی ہیں، ڈاکٹر صاحب کی اب تک پچاس سے زائد کتابیں عربی، انگریزی اور اردو میں شائع ہو چکی ہیں، ان کی تصنیفات اور تراجم علمی حلقوں میں قدر و ...