Wednesday, November 6, 2024

ایک خیمہ کے اندر اپنے نقّاش خانہ میں نسل کشی اور ثقل سماعت سے مقابلہ کرتے ہوئے بلال ابو النحل

 


ایک خیمہ کے اندر اپنے نقّاش خانہ میں نسل کشی اور ثقل سماعت سے مقابلہ کرتے ہوئے بلال ابو النحل


غزہ کی پٹی میں واقع "دیر البلح" نامی شہر میں "السلام" روڈ کے کنارے ایک خیمہ لگا ہے، جو دنیا کے سب سے زیادہ ہجوم اور بھیڑ بھاڑ والے علاقوں میں سے ایک بننے والے اس جغرافیائی مقام میں ڈرائنگ روم اور نقاش خانہ میں تبدیل ہو چکا ہے،، جوں ہی کوئی انسان اس میں داخل ہوتا ہے تو وہ اپنے آپ کو ایک ایسے نوجوان فنکار، آرٹسٹ بلال ابو النحل کی خوبصورت اور شاندار تخلیقات کے درمیاں پاتا ہے، جنہوں نے اپنے عمدہ دور میں اپنے قلم اور نب کے ذریعے نسل کشی، تباہی و بربادی اور بہرے پن و گرانی گوش کا مقابلہ کرتے ہوئے اس خیمے کو نگار و نقاش خانہ میں تبدیل کر دیا ہے_

26 سالہ ابو النحل جن کو اپنے پیشہ وارانہ فن کو جاری رکھنے کے لیے نہ تو جنگ کے حالات اور حوادث زمانہ روک پائے، نا ہی بندوق کی گولیوں سے وہ ڈرے اور نا ہی میزائلوں کی بوچھاڑ نے ان کا بال بیکا کیا، وہ غزہ و اہل غزہ اور اپنے لوگوں کی پینٹنگز اور نقاشی کرتے ہیں، باحیات اور شہداء کی ڈرائنگ اور نقش کشی کرتے ہیں، ایک سال سے زائد عرصے سے اپنے روز مرہ معمولات اور مشاہدات کی نگرانی کر رہے ہیں، اور پینٹنگز اور نقش و نگار سے مزین نائلون سے ڈھکے ہوئے خیموں کی دیواروں کو اپنی تخلیقات کی نمائش کا ایک ذریعہ بنا لیا ہے_

بلال بیچارے ثقل سماعت سے جھونجھ رہے ہیں، بہرے ہیں، وہ لوگوں کے غموں اور دکھ درد کو نہیں سن سکتے، لیکن وہ آپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں، اسے محسوس کر سکتے ہیں، اور سمجھ سکتے ہیں کہ کس طرح لوگ اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں_ وہ ایسے شخص ہیں جو نقل مکانی کے متعدد ادوار سے گزر چکے ہیں، جنہوں نے اپنے بہت سارے عزیزوں، رشتہ داروں، اور دوستوں کو کھو دیا ہے، چنانچہ انہوں نے غزہ کے دکھ درد کو سرمئی رنگوں میں نقش کشی کی ہے، جبکہ وہ جنگ و جدل اور جارحیت سے پہلے لوگوں کے قصے کہانیوں کو خوشیوں میں رنگا کرتے تھے اور نقش کشی کرتے تھے_

ابو النحل ڈرائنگ اور پینٹنگز کے بیحد شوقین ہیں، چنانچہ انہوں نے سب سے پہلے کاغذ پر پینٹنگ اور تصویر کشی شروع کی، پھر دھیرے دھیرے وہ تختوں اور دیواروں پر پینٹنگز اور نقش نگار کرنے لگے، اور علاقے میں گرافٹی فن کے تخلیق کاروں میں ان کا نام شمار ہونے لگا، اور بہترین فنکار، مصور اور آرٹسٹ بن کر سامنے آئے_ اپنے اردگرد لوگوں کو اشاروں کی زبان کا استعمال کرتے ہوئے بتایا کہ دیواری پینٹنگز ہی دنیا سے بات کرنے اور اس سے مخاطب ہونے کا سب سے آسان طریقہ ہے، جبکہ وہ پورٹریٹ جن میں انہوں نے نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا اس سے لوگوں کے درمیان قربت اور بڑھ گئی_

جنگ سے پہلے ایک پینٹنگ کو مکمل کرنے میں تقریباً دس دن لگ جاتے تھے، وہ پارک اور باغیچوں میں لہو و لعب میں مشغول اور تفریح کرتے ہوئے بچوں کی تصاویر بناتے تھے، اسی طرح غزہ کے ساحلی سمندر پر انسانوں اور ان کی زندگیوں سے بھرپور مناظر کی نقش کشی کرتے تھے، لیکن 7 اکتوبر 2023 کے بعد، سیاہ اور سفید رنگ سے پینٹنگز کرنے لگے، جو لوگوں کے دکھ درد اور ان پر ظلم و جبر کی عکاسی کرتی ہے_

تارکینِ وطن نوجوان فنکار آرٹسٹ بلال ابو النحل کے خیمے میں نئی فنکارانہ تخلیقات اور پینٹنگز کا دیدار کرنے جاتے ہیں، ان کی زیارت کرتے ہیں اور میزائلوں کی بارش کے چلتے پوری مہارت کے ساتھ بنائی گئی پینٹنگز پر تعجب اور حیرت کا اظہار کرتے ہیں_ ابو النحل کی انگلیوں کے پوروں سے نقش کی گئی خوبصورت پینٹنگز جن کا لوگ مشاہدہ کر رہے ہیں اس نوجوان کی ہے جو بولنے سے قاصر ہے کیونکہ کہ وہ گونگے ہیں، لیکن وہ الفاظ کے ذریعے نقش کشی کرنے پر مہارت رکھتے ہیں، وہ تمام زائرین کو مدہوش کرتے ہیں، لوگ آتے ہیں اور تصاویر اور پینٹنگز کا فوٹو لیتے ہیں اسی طرح لوگ پینٹنگز کے سامنے اپنی سیلفی لیتے ہیں، لوگ اس نوجوان کی مسلسل کوششوں اور محنتوں کی قدر کرتے ہیں اور ان کے اس شغف اور دلچسپی پر حوصلہ افزائی کرتے ہیں_

ریاض الجایح جنہوں نے آرٹسٹ ابو النحل کو اپنے گھر میں پناہ دی ہے، ان کے ساتھ رہتے ہیں، عام طور پر ریاض خیمہ کے اندر ابو النحل کے پاس ہی بیٹھتے ہیں اور زائرین کا بھرپور استقبال کرتے ہیں اور ابو النحل کی طرف سے نیابت کرتے ہیں_ الجزیرہ نت کے مطابق، ان کا کہنا ہے کہ وہ بلال ابو النحل کے پاس صبح سات بجے سے رات دس بجے تک بیٹھتے ہیں، اور ابو النحل کا تعاون کرتے ہیں جب وہ اپنے قلم اور نب سے تخت اور بورڈ پر پینٹنگز بنا رہے ہوتے ہیں_ مزید کہا کہ میں نے ان کے لئے نقش خانہ بنایا ہے تاکہ غزہ میں جاری خطرناک تباہی اور جنگ کے باوجود آمدنی کا ایک ذریعہ بن سکے_

بلال کے ایک اور دوست مجدی موسیٰ ہیں جو روزانہ ان کے پاس آتے ہیں اور بلال کا سپورٹ اور تعاون کرتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، اور ثابت قدمی کو مزید مضبوط کرتے ہیں، ایک ویڈیو میں کہتے ہیں کہ جب وہ پینٹنگز کا بورڈ اٹھا رہے تھے: غزہ میں ہر چیز معدوم ہو چکی ہے، ہماری صلاحیتیں، ہماری امنگیں، ہمارے عزائم، ہماری خواہشات، ہمارے ادارے جو اس فن سے وابستہ تھے غزہ کی پٹی میں وحشیانہ درندگی اور جنگ کے نتیجے میں سب کچھ ختم ہو گیا ہے_

غزہ سے تعلق رکھنے والے ایک اور نوجوان یامین عویضہ ہیں جو یومیہ بلال کے خیمے کا دورہ کرتے ہیں اور جنگ کی کوخ سے پیدا ہونے والے ان کی صلاحیتوں اور ان کے فنی کاموں کی جم کر تعریف کرتے ہیں، انہوں نے بلال کے لیے خصوصی تعاون اور امداد کی اپیل کی ہے، تاکہ بلال کی روح میں پینٹنگز کے ذریعے ان کے اور اہل غزہ کے احساسات و جذبات کا اظہار کرنے والی تخلیقات پھوٹ پڑے_

بعد ازاں، خان یونس کے مدرسہ الاعدادیہ کے تربیتِ فنون کے استاد محترم جناب احمد الترتوری نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ بلال کا یہ خیمہ دراصل ارادہ و ہمت اور درپیش چیلنجز کی نمائندگی کررہا ہے جو فلسطینی عوام کو ممتاز بنا رہا ہے اور انہیں ایک الگ پہچان دے رہا ہے_ بلال جو اپنے قلم اور نب کے ذریعے پینٹنگز کرکے اپنے خصوصی طریقے سے مزاحمت کر رہے ہیں_ انہوں نے مزید کہا: تارکین وطن سے بھرپور علاقہ میں اس ڈرائنگ روم اور نقاش خانہ کا وجود ثابت قدمی اور چیلنج کا پیغام ہے_

الترتوری نے فلسطین اور عالم عرب کے ثقافتی اداروں اور تنظیموں سے درخواست کی ہے کہ ابو النحل کی تخلیقات پر توجہ دیں، اور انہیں اس مشکل حالات میں جس سے محصور غزہ کی پٹی میں ثقافتی ادارے گزر رہے ہیں ہر طریقے کی مادی و اخلاقی مدد فراہم کریں، جنہیں قابض افواج فلسطینیوں کے خلاف اپنی "وحشیانہ جنگ" کے حصے کے طور پر براہ راست نشانہ بناتی ہیں_

ابو النحل زخمی محصور ملک کی سرحدوں سے باہر جانے کا خواب دیکھتے ہیں، پڑوسیوں کے مطابق، ان کی یہ تمنا ہے کہ وہ بین الاقوامی ڈرائنگ نمائشوں میں شرکت کریں، جہاں وہ اپنی پینٹنگز اور ڈرائنگ کی نمائش کریں اور غزہ کی آواز بنیں ، 17 سال سے زائد عرصے سے غزہ کی پٹی پر سخت محاصرے کی وجہ سے اپنی فصیل سے باہر پرواز کرنے سے محروم ہیں، غزہ کے آسمان کو بھرنے والے راکٹوں کی مسلسل بارش، دھماکوں اور ان کی ہلاکتوں و تباہیوں سے دور رہیں_

عربی سے ترجمہ : ظفر ہاشم مبارکپوری




No comments:

Post a Comment

غزہ، تمہاری جد و جہد کے رہنما اصول!

  غزہ، تمہاری جد و جہد کے رہنما اصول!!! چار سو ستر دن سے زیادہ "غزہ" ہر اس شخص کے لیے "علم کا میدان اور آماجگاہ بنا ہوا تھا، ...