Saturday, October 26, 2024

هديةُ كتاب

 


هديةُ كتاب

✍️ ظفر هاشم المباركفوري/ نيو دلهي - الهند 

تعد أفضل هدية في العالم يقدمها إنسان لآخر هي هدية كتاب، و هذا النوع من الهدايا سامي و هادف، حيث تكون الهدية لها مكانة خاصة و قيمة عندما يهديها مؤلف الكتاب نفسه.

في أحد الأيام، أهداني أديب بارع و كاتب بارز من السعودية هديةً قيمة جميلة، كنت أنتظرها بشغف و أترقب وصولها منذ تم إرسالها إلى الهند. و هذه الهدية كانت ذات أهمية بالغة عندي لأنها جاءت من شخص عظيم و من مكان بعيد جداً.

  في يوم ما كنتُ أتناول طعام الغداء في غرفتي، رنّ هاتفي فجأة ، قلت : مرحباً من حضرتك ، قال : "أنا ساعي البريد". هل أنت ظفر...؟

قلت : أجل…

قال : لك طرد في البريد يجب أن تأتي لتستلمها…

أجبته : أنا قادم.

 بعد أن حصلت على هذا الطرد، عدت إلى المنزل و فتحته و أنا في غاية السرور، أطير فرحاً، و أشعر بالنشاط.

إنه جميييل كثيييير، ماشاء الله تبارك الرحمن..

كانت هذه الهدية هي كتاب اسمه "خيانة ورق" أهداني إياها الكاتب الأديب السعودي عبد الباري أحمد الدخيل حفظه الله و رعاه. 

تعرفت على الكاتب الأديب من خلال مجموعة تفاعلية على تطبيق التليجرام ، وقتها أرسل الكاتب صورة الكتاب ليشاهده أعضاء المجموعة، عندما رأيته في تلك اللحظة سألت الكاتب -حفظه الله و رعاه- عن هذا الكتاب و عن كيفية الحصول عليه في الهند و هل هو موجود هنا، فأجابني فجأة : إذا ممكن كتابة العنوان البريدي لأرسل لك نسخة -إن شاء الله- و سيصلك قريباً بإذن الله تعالى.

الحمد لله، تم بفضل الله تعالى وصول الكتاب، و هو بحوزتي الآن.

نبذة عن حياة الكاتب 

عبد الباري أحمد الدخيل من مواليد جزيرة تاروت، تلقى التعليم فيها.

-عمل في وزارة البترول و الثروة المعدنية في الرياض.

-يعمل حالياً في إدارة العلاقات العامة و الإعلام في بلدية محافظة القطيف.

-أنهى عدة دورات تدريبية في العمل الإعلامي و الصحفي.

-أدار عدد من الندوات و المحاضرات و الحوارات التلفزيونية.

-قدم ورش عمل في المجال الإعلامي و الصحفي.

-شارك في التمثيل في عدة أفلام أنتجتها مؤسسة قيثارة للإنتاج الفني منها :

"المهمة الصعبة"،"في بيتنا موهوب"، "الصفيح" ، ثلاثون يوماً" و غيرها.

-نشرت له قصائد شعرية و قصص قصيرة و مقالات في بعض الصحف و المجلات السعودية و عدد من المواقع الالكترونية.

-صدر له عدد من الكتب من بينها:

"من مناقب اهل البيت"، 

"السلفيون و الشيعة تجربة حوار"، 

"الوطن للجميع"، 

"مشهد للتواصل و الانفتاح الوطني"،

"أوراق ليست للبيع"،

(مصدر: منتدى الثلاثاء الثقافي)

تعريف بالكتاب

اسم الكتاب "خيانة ورق“ و هو مجموعة قصصية جديدة للكاتب الأديب عبد الباري أحمد الدخيل. 

كل قصة منها تتناول موضوعاً مختلفاً. و تعرض تجربة إنسانية فريدة.

صدرت المجموعة القصصية عن دار الانتشار العربي في لبنان.

تحتوي هذه المجموعة القصصية على 25 قصة قصيرة.

يفتتح الكتاب بمقدمة يطرح فيها الكاتب مجموعة من الأسئلة

مثل كيف صبرنا على الغياب ؟ 

كيف سامحنا ؟

كيف خفنا و ندمنا ؟

كيف خانتنا براءة الأطفال و ظننا أن وراء الحب وردة ؟

كيف متنا ألف مرة ؟

كيف أخفينا الأشواق في أكياس ورقية ؟

و كيف تعودنا على نسيان المواجع ؟

 و غير ذلك....

ثم يبدأ بسلسلة من القصص القصيرة الرائعة الشيقة و في القصة الأولى يتناول الكاتب موضوع الأمومة تحت عنوان "أيتها السماء إنها أمي".

يذكر فيها عن أحوال منزله، هناك توجد مكتبة صغيرة في المنزل. و أفراد أسرته مثقفون و مهذبون، و أمه الكريمة تنحدر من عائلة عريقة في العلم و الأدب، فوالده الشفيق وجيه البلد. وعمها شاعر. يحترم بعضهم البعض و يلقون بابتسامة، و لا يعلو صوتهم على صوت الأب. ولا مجال لمخالفة أمر الأم.

و بعده، تبدأ القصة الثانية بعنوان "بابا العظيم". فيها يبين المؤلف أن أبيها صارع قرشاً، واستطاع النجاة من بين أسنانه.

ثم القصة الثالثة "مذكرات رغيف" يذكر فيها ذكريات الماضي.

والرابعة "شظايا تقاوم الغياب" والخامسة "سماء لا تسكنها الغيوم" والسادسة "أنتِ وحدكِ هنا".

هكذا يذكر الكتاب جميع القصص من البداية إلى النهاية بكل اهتمام و بشكل جدي.

و تتميز قصص المجموعة بأسلوبها المشوق الذي يأسر القارئ حتى النهاية.

هذه المجموعة القصصية من أمتع ما قرأته للكاتب عبد الباري، أنا أعشق كل ما كتبه هذا الكتاب البديع.

استخدم عبد الباري أحمد الدخيل أسلوبًا أدبياً سرديًا يمزج بين البساطة و التعمق، مما يجعل القارئ يندمج في القصص.

تمتاز لغة أحمد الدخيل في هذا الكتاب بالبساطة و البلاغة في آن واحد.

أثرت هذه المجموعة القصصية "خيانة ورق" فيّ بشكل عميق. استمتعتُ بأسلوب الكاتب السلس و مشاعره القوية. كل قصة تحمل أهمية بالغة، أنصح الجميع بقراءته فكل قصة ذات أهمية بالغة، فهو يستحق أن يكون في مكتبات القراءة و المطالعة لمحبي الأدب القصصي.

26 أكتوبر 2024م

Sunday, October 13, 2024

دنیا کا سب سے عظیم تحفہ کتابوں کا تحفہ💎


 دنیا کا سب سے عظیم تحفہ کتابوں کا تحفہ💎

تعارف و تبصرہ مع قصہ "زہریلی روشنی"

ظفـــــــر ہاشـــــــــــم اعـظـــــــــــمی

دنیا میں کتابوں کا ہدیہ سب سے عظیم، عمدہ، قیمتی اور بیش بہا ہدیہ مانا جاتا ہے، اور یہ اس وقت عظیم تر بن جاتا ہے جب اس کے لکھنے والا از خود ہدیہ کرتا ہے☺️، اور اس وقت اور بھی زیادہ بلکہ عظیم ترین بن جاتا ہے جب ایک تحفہ، ایک گفٹ، ایک ہدیہ میلوں کا سفر طے کرکے، دور دراز ممالک کا چکر کاٹ کر، سمندروں کو پار کرتے ہوئے آتا ہے تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا_

اسی طرح کا ایک بہت ہی خوبصورت، پیارا اور نایاب ہدیہ کروڑوں میل کے فاصلے سے، نہ جانے کیسے کیسے مراحل طے کرتے ہوئے، کئی بحور اور سمندروں کو پار کرتے ہوئے، جب مجھ تک پہنچا میرا دل خوشی سے جھوم اٹھا، یہ مجھے ایک خواب سا لگ رہا تھا_

ہوا یوں کہ بروز جمعرات دوپہر کے وقت ایک نئے نمبر سے کال آتی ہے، نمبر دیکھتے ہی مجھے احساس ہوا کہ ضرور یہ ڈاکیہ ہوگا، فوراً میں نے کال ریسیو کی، آواز آئی ظفر۔۔۔ میں نے کہا جی،۔۔۔

آپ کا پارسل آیا ہوا ہے،۔۔۔

میں نے کہا صاحب بس ایک منٹ دیجئے،۔۔۔۔۔۔۔۔

الحمد للہ پارسل موصول ہوا، میں بے انتہا خوش تھا، سب سے پہلے میں نے پارسل کھولا، الٹ پلٹ کر دیکھا، دیکھتے ہی خوشی کے سمندر میں ڈوب گیا_

بعد ازاں میں نے سب سے پہلے صاحب کتاب کو شکریہ کا ایک خط ارسال کیا_

یہ کتاب در اصل سعودی عرب کے ایک مایہ ناز صحافی، ادیب محترم جناب عبد الباری احمد الدخیل (حفظه الله و رعاه) کی نایاب اور عمدہ تصانیف میں سے ایک ہے_ ایک گروپ میں ہلکی پھلکی شناسائی ہوئی تھی، گروپ ہی میں نے یہ کتاب دیکھی، مجھے پسند آئی تو میں نے میسج کیا کہ ہندوستان میں کہاں دستیاب ہے_

انہوں نے فورا پرسنل پر رابطہ کیا، 

لکھا:

آپ اپنا مکمل پتہ ارسال کر دیں،

اور پھر نام وغیرہ پوچھا،

میں نے سوال کیا، ڈاک خرچ وغیرہ.......

جواب ملا...

مجاناً و هديةً۔۔۔۔۔

میں تھوڑی دیر کے لیے حیران تھا کہ ابھی اتنی جان پہچان بھی نہیں ہوئی تھی_

خیر میں نے مکمل پتہ بھیج دیا، کہنے لگے کہ ان شاءاللہ یہ کتاب جلد ہی آپ کے ہاتھوں میں ہوگی_

میں نے انکا شکریہ ادا کیا،

جواب ملا، 

لا شكر على واجب۔

کہا کہ یہ میرے لئے باعث مسرت اور خوشی کا مقام ہے کہ میری کتابیں ہندوستان میں بھی لوگ پڑھ رہے ہوں_

عبد الباری احمد الدخیل کون ہیں؟

صاحب کتاب کا مختصر تعارف

عبد الباری احمد الدخیل جزیرہ تاروت میں پیدا ہوئے، جزیرہ تاروت یہ سعودی عرب کا ایک جزیرہ ہے جو خلیجِ عرب میں واقع ہے، وہیں پر انہوں تعلیم و تربیت حاصل کی_

"الریاض" کے اندر وزارتِ پیٹرولیم اور معدنی وسائل میں انہوں نے کام کیا، فی الحال وہ "القطیف" میں تعلقات عامہ اور انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں خدمات انجام دے رہے ہیں_

انہوں نے میڈیا اور صحافتی کاموں کے متعلق کئی تربیتی پروگرام بھی کروائے ہیں_

متعدد سیمینار، محاضرات اور ٹیلیویژن کے مکالمے بھی سر انجام دیے ہیں_

انہوں نے میڈیا اور صحافتی میدان میں ورکشاپ بھی کیے ہیں_

بہت سارے شعری قصائد، قصص قصیرہ اور مختلف عنوانات پر بےشمار مضامین لکھے ہیں جو سعودی عرب کے اخبارات اور مجلات میں شائع ہوئے ہیں_

انہوں نے متعدد کتابیں بھی لکھی ہیں_

ان کی کتابوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں:

من مناقب اهل البيت.

السلفيون والشيعة تجربة حوار. 

الوطن للجميع.

مشهد للتواصل والانفتاح الوطني.

أوراق ليست للبيع.

خيانة ورق.

مذکورہ کتابیں عبد الباری احمد الدخیل کی خوبصورت تصنیفات ہیں_

انہی بیش بہا کتابوں میں سے ایک قیمتی کتاب "خيانة ورق" ہے جس کا تعارف یہاں مقصود ہے_

کتاب کا مختصر تعارف 

کتاب کا نام "خيانة ورق" ہے، کتاب عربی زبان میں ہے، سرورق بہت ہی جاذب نظر ہے، یہ ایک مجموعۂ قصص قصیرہ ہے، کتاب کے مکمل صفحات 124 ہیں_

صفحات بہترین کاغذ کے اور بہت ہی عمدہ ہیں_

کتاب میں کل 25 قصے ہیں جو بہت ہی شیریں اور سلیس زبان میں لکھے گئے ہیں_

کتاب لبنان میں دار الانتشار العربی سے شائع ہوئی ہے_

کتاب میں مختلف موضوعات پر چھوٹے چھوٹے قصے مذکور ہیں_ جو قاری کے دلوں کو موہ لیتے ہیں، اور جب قاری پڑھتا ہے تو بس پڑھتا ہی چلا جاتا ہے_

کتاب کی ابتداء "أيتها السماء إنها أمي" (اے آسماں یہ میرے امی ہیں) سے ہوتی ہے یہ پہلا قصہ ہے، جبکہ دوسرا قصہ ہے "بابا العظيم" پیارے ابو جان"_ مذکورہ کتاب آخری قصے "زہریلی روشنی" پر ختم ہوتی ہے_ 

زیر نظر کتاب کے تمام قصے لاجواب اور عمدہ ہیں_

اس کتاب کے آخری قصے کا میں نے اُردو ترجمہ کیا ہے، امید ہے قصہ آپ کو پسند آئے گا_،

زہریلی روشنی

نومبر کا مہینہ تھا، ہمارے ساحلی شہر میں موسم خوشگوار تھا، فضا معتدل تھی، ہمارے والد صاحب نے پلان بنایا کہ آج بروز اتوار بعد العصر سمندر کے کنارے ایک حسین و خوشگوار لمحات گذاریں گے_

ساحلی سمندر پر ایک خوبصورت وقت گذارنے، دل کو سکون پہونچانے اور فرحت و نشاط کی تجدید کے لیے یہ ایک بہترین موقع تھا، اور خاندان کے دیگر افراد سے ملاقات کا بھی ایک عمدہ چانس تھا_

علاوہ ازیں، ہمیں مچھلی پکڑنے (Fishing) اور تیراکی (swimming) کا بھی ایک اچھا وقت ملے گا جو ہمارا مشغلہ (Hobby) رہا ہے_

ہم لوگ اپنی کار سے نکل پڑے، سمندر کی طرف رواں دواں تھے، آگے جا کر ایک جگہ روڈ پر ہم لوگ ٹھہرے، کیا دیکھتے ہیں کہ ایک زبردست ٹریفک اور جام لگا ہوا ہے، ایک حادثے کی وجہ سے ساری گاڑیاں ایک جگہ جمع ہو گئی ہیں، ایک ٹرک پلٹ گیا تھا، جس کی وجہ سے راستہ بلاک اور بند کر دیا گیا، گویا کہ سامنے ایک پہاڑ ہے جو آنے جانے والوں کے لیے رکاوٹ بن گیا ہے_

میں اپنے والد صاحب کے ساتھ کار سے اترا تاکہ قریب سے جاکر حادثے کا معائنہ کریں، اسی وقت ایک زور دار دھماکہ کی آواز آئی، سورج کی شعاعوں کی طرح پوری فضا منور ہوگئی_

زمین ہل گئی، لوگ اِدھر اُدھر بھاگنے لگے، بعض گاڑیوں کی کھڑکیاں بھی ٹوٹ گئیں، عورتوں اور بچوں کی چیخیں بھی سنائی دینے لگیں_

ایک منٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر روشنی غائب ہوگئی، اور کانوں میں دھماکوں کی آوازیں اب بھی باقی تھیں_

جبکہ ہر ایک اِدھر اُدھر بھٹک رہا تھا، دھماکوں کی وجہ سے آسمان سے پرندے نیچے گرنے لگے ایسا لگ رہا تھا کہ موسلادھار بارش ہو رہی ہے اور ہمارے جسموں پر اولے پڑ رہے ہیں_ اور جب یہ اولے کھڑی ہوئی گاڑیوں پر گرے تو ایک بھیانک آواز آنے لگی_

میرے والد صاحب کو سانس میں کچھ دقت پیش آرہی تھی، آواز ہلکی ہو گئی، ان کے اعضاء میں اینٹھن اور بدن میں کھینچاؤ آگیا تھا، آنکھوں سے خون نکلنے لگا، مردوں اور عورتوں کا ایک جم غفیر موسم خزاں کے پتوں کی طرح ہمارے اوپر گرنے لگا_

اس کے بعد بیکٹیرل آلودگی کے سد باب کی ایک ٹیم نے ہمیں کورنٹین کر دیا، مجھے اخبار کے ذریعے معلوم ہوا کہ یہ وائرس صرف اور صرف چالیس سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو ہی ہوتا ہے_

اتوار - 13 اکتوبر 2024ء

9 ربیع الثانی 1446ھ



غزہ، تمہاری جد و جہد کے رہنما اصول!

  غزہ، تمہاری جد و جہد کے رہنما اصول!!! چار سو ستر دن سے زیادہ "غزہ" ہر اس شخص کے لیے "علم کا میدان اور آماجگاہ بنا ہوا تھا، ...